کیااقتدار کے لالچ میں عمران خان واقعی پاگل ہوچکاہے؟
عمران خان کو وزارت عظمی کے منصب تک پہنچا کر اقتدار سے نکالنے والی طاقتور ترین ملٹری اسٹیبلشمنٹ اب یہ حتمی نتیجہ نکال چکی ہے کہ انکا اب پاکستانی سیاست میں کوئی مستقبل نہیں کیونکہ وہ اس ڈس آرڈر کا شکار ہو چکے ہیں جس میں ایک سیاستدان اقتدار حاصل کرنے کی خاطر احمق پن کی حد تک خطرناک حرکتیں کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی ڈس آرڈر کی وجہ سے عمران آج انتہا پسند ایجنڈا اپنائے ہوئے ہیں اور اس گڑھے کو گہرا کرتے چلے جا رہے ہیں جس میں وہ گرے ہوئے ہیں۔ لہذا اس ڈس ارڈر کا شکار ہونے والا کسی حکومتی عہدے کا اہل نہیں رہتا۔
خان کوریاستی دستاویزات میں باقاعدہ ’فتنہ‘ قرار دے دیا
معروف رائٹر ندیم فاروق پراچہ نے انگلش اخبار ڈان میں اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے عمران خان کو ریاستی دستاویزات میں باقاعدہ ’فتنہ‘ قرار دے دیا ہے، ان کے نزدیک عمران ضد، خودپرستی، اور انانیت کا شکار ایسا شخص ہے جو ڈس ارڈر کا شکار ہو چکا ہے اور اب کوئی حکومتی یا سیاسی عہدہ سنبھالنے کا اہل نہیں۔
پی ٹی آئی کے بانی احمق پن کی حد تک ایک ’خطرناک‘ شخص قرار
ندیم فاروق پراچہ بتاتے ہیں کہ 2015ء میں عمران خان کے وزیراعظم بننے سے تین سال قبل معروف جوہری سائنس دان اور لکھاری پرویز ہودبھائی نے ڈان میں لکھا تھا کہ عمران خان احمق پن کی حد تک ایک ’خطرناک‘ شخص ہیں۔ ظاہر ہے اس پر پرویز ہود بھائی کو عمران کے حامیوں کی جانب سے شدید تنقید اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن پرویز ہودبھائی کی وہ تحریر تقریباً ایک دہائی گزرنے کے بعد آج بھی عمران کی ذہنی حالت کی غمازی کرتی نظر آتی یے۔
عمران خان نے چالاکی سے عوامی حمایت حاصل کی،تجزیہ کار
ندیم فاروق پراچہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ ایک برس سے جیل میں قید ہونے کے باوجود سیاسی منظرنامے میں رہنے کے لیے عمران خان نے بڑی چالاکی سے خیبر پختونخوا اور وسطی پنجاب کے شہری اور نیم شہری علاقوں میں حاصل کردہ حمایت کو استعمال کیا۔ عمران نے ہوشیاری سے عدالتوں کا استعمال بھی کیا جہاں عمراندار ججز نے انہیں میدان سیاست سے حذف کرنے کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے کو اب تک ناکام بنا رکھا یے۔ عمران خان کی جماعت سوشل میڈیا پر اب بھی مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے یے۔ لیکن اس کے باوجود وہ پابند سلاسل ہیں اور تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود جیل سے باہر نہیں نکل پائے۔
سابق وزیراعظم عمران خان دباؤ کاشکارہوچکے ہیں،لکھاری
وسیع منظر نامے میں دیکھا جائے تو وہ گزشتہ سال اپنی گرفتاری کے بعد جس گڑھے میں جا گرے تھے، اسے وہ اپنی پرتشدد سیاسی سرگرمیوں سے مزید گہرا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں عمران خان کے اقدامات، دباؤ، پاگل پن اور سیاسی اثرورسوخ کھونے کے خوف کے گرد گھومتے ہیں۔ ندیم فاروق پراچہ کے بقول آج وہ جن مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں وہ ان کے اپنے فیصلوں کی وجہ سے ہے جس نے بہ ظاہر ان کے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے۔ اقتدار جانے کے بعد سے عمران نے جو انتہا پسند پالیسی اپنا رکھی ہے اس سے سب سے زیادہ نقصان ملکی معیشت کو ہو رہا ہے۔ اسی لیے ملٹری اسٹیبلشمنٹ مصر ہے کہ وہ انہیں سبق سکھا کر رہے گی۔
عمران کاکام اسٹیبلشمنٹ پردباؤڈالنا ہے،ندیم فاروق
ندیم فاروق پراچہ کہتے ہیں کہ عمران نے بھی فوج کے ساتھ وہی حکمت عملی اپنی اپنا رکھی ہے جو کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ اہنائی ہوئے ہے، یعنی دباؤ ڈال کر مذاکرات پر مجبور کرنا۔ عمران کی اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے فوجی اسٹیبلشمنٹ پر رقیق حملے کرنے کی ’حکمت عملی‘ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ تنگ آکر ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے آمادہ ہو جائے، لیکن یہ عمران کی خام خیالی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ فریب کی دنیا میں رہتے ہیں اور ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔
سابق وزیراعظم چاہتے تھے فوج کیخلاف بغاوت ہوجائے،لکھاری
ندیم فاروق پراچہ کہتے ہیں کہ عمران خان احمق نہیں ہیں۔ لیکن بہت سے عصر حاضر کے پاپولسٹ رہنماؤں کی طرح وہ بھی اپنی ’مقبولیت‘ اور پُرکشش شخصیت کو پیش نظر رکھ کر حربے تلاش کرتے ہیں۔لہٰذا سیاسی مخالفین سے بامعنی مذاکرات کے لیے بہتر حکمت عملی اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کرنے کی بجائے عمران نے بھی اکثر ایسے راستے اپنائے ہیں جن پر چلنے کے نتائج زیادہ حقیقت پسندانہ نہیں نکلے۔ مثال کے طور پر عمران خان کو لگتا تھا کہ ان کی جماعت کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملوں سے آرمی چیف کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑے گی اور ان کے حمایتی فوجی جرنیل انہیں جیل سے نکال لیں گے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
ندیم فاروق براچہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بھی اسی طرح کی خام خیالی پر مبنی تھا۔ عمران کا خیال تھا کہ اس طرح شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس منسوخ ہونے کا امکان پیدا ہوگا جو حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کرے گا کہ وہ ان سے رابطہ کر کے پیچھے ہٹنے کی درخواست کریں، لیکن علی امین گنڈاپور کے غائب کیے جانے کے بعد یہ منصوبہ بھی فلاپ ہوگیا۔
عمران خان اپنے ہوش وحواس گنوا بیٹھے ہیں؟
ایسے میں سوال یہ یے کہ کیا واقعی عمران خان اپنے ہوش وحواس گنوا بیٹھے ہیں؟ شاید ایسا ہی ہے۔ لیکن سیاستدانوں میں اس طرح کی بےچینی پائی جانا غیرمعمولی نہیں بالخصوص ایسا شخص جسے بے پناہ عوامی مقبولیت اور اثرورسوخ ملا ہو۔ 2019ء میں نفسیات کے امریکی پروفیسر ڈیوڈ پی باراش نے لکھا کہ سیاسی رہنما اکثر اوقات غصے، مایوسی، ضد، انتقام، اور غرور میں ایسی منصوبہ بندی کر لیتے ہیں جس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوتا لیکن انہیں پھر بھی یہی یقین ہوتا ہے کہ وہ ناکام نہیں ہوں گے۔ ایسے میں وہ غیر معقول ترین قدم اٹھا لیتے ہیں، چاہے وہ مہلک ترین ہی کیوں نہ ہوں، بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے اپنے ہر فیصلے کو جائز سمجھتے ہیں۔
سابق وزیراعظم پرغیر اہم ہو جانے کا خوف
ندیم فاروق پراچہ کہتے ہیں کہ دباؤ، پاگل پن اور غیر اہم ہو جانے کا خوف عمران خان جیسے سیاست دانوں پر پر تباہ کُن اثرات مرتب کرتا یے اور انہیں جارحانہ طریقے سے طاقت چھیننے کے لیے سازشیں کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ وہ موڑ ہوتا ہے جہاں ایک سیاستدان احمق پن کی حد تک ’خطرناک‘ ہو جاتا ہے اور یہی وہ ڈس آرڈر ہے جس کا شکار عمران خان بھی ہو چکے ہیں۔ بہت سارے پاپولسٹ رہنماؤں میں اس ڈس آرڈر کی علامات واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
ندیم فاروق پراچہ کہتے ہیں کہ پچھلے ہفتے اسلام اباد میں عمران خان کے ایما پر جو منصوبہ تیار کیا گیا تھا اس کا بنیادی مقصد چند پی ٹی آئی ورکرز کی لاشیں حاصل کرنا تھا تا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ عمران کو اب بھی یقین ہے کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم بنیں گے اور ملک ویسے ہی چلائیں گے جیسے وہ چلانا چاہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران سے وزارت عظمی چھینی نہیں گئی تھی بلکہ انہوں نے اپنے غیرمعقول رویے کی وجہ سے اسے خود ہی گنوایا اور تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں فارغ ہو گئے۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب ڈس آرڈر کا شکار لیڈر احمق پن کی حد تک خطرناک ہو کر الٹی سیدھی حرکتیں کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی یہی حرکتیں ثابت کرتی ہیں کہ وہ اب کسی اہم حکومتی عہدے کا اہل نہیں رہا۔