آن لائن قرضہ ایپس کے ذریعے عوام کو کیسے لوٹاجارہاہے؟

پاکستان میں غیرقانونی موبائل لون ایپس کی صورت میں سامنے آنے والے مکروہ دھندے نے عوام کو سود، بلیک میلنگ اور ڈیٹا چوری کے شکنجے میں جکڑ کر نفسیاتی اور مالیاتی غلام بنا دیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بلند وبانگ دعوؤں کے باوجود پاکستان میں آن لائن قرضہ ایپس کے ذریعے ہونے والے مالیاتی فراڈ کا سلسلہ جاری ہے غیر قانونی لون ایپس اب بھی کھلے عام عوام کو لوٹ رہی ہیں۔ ان کے ذاتی ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی حاصل کر رہی ہیں۔ حقیقت میں پاکستان میں غیرقانونی لون ایپس خاموش قاتل بن چکی ہیں۔ یہ ایپس لوگوں کو فوری قرض فراہم کرنے کا جھانسہ دے کر جال میں پھنساتی ہیں، پھر کئی گنا سُود اور نفسیاتی دباؤ سے صارفین کی زندگیا اجیرن بنا دیتی ہیں۔
مبصرین کے مطابق پاکستان میں ڈیجیٹل قرضہ ایپس کی مقبولیت اس وقت بڑھی جب نئے قوانین کے نفاذ کے بعد عام شہریوں کیلئے بینکوں سے قرض کا حصول مشکل بنا دیا گیا۔ ایسے میں ان کمپنیوں نے فوری اور آسان قرضے کا دعویٰ کرکے غریب اور متوسط طبقے کو اپنی جانب راغب کیا۔ چند ہزار روپے کے قرض کے عوض ان کمپنیوں نے شہریوں سے نہ صرف قومی شناختی کارڈ اور تصاویر مانگیں۔ بلکہ موبائل کانٹیکٹس، فوٹو گیلری اور کیمرے تک مکمل رسائی بھی حاصل کی۔ تاہم اب سامنے آیا ہے کہ آن لائن قرض دینے والی یہ کمپنیاں قرض منظور ہونے کے بعد رقم کی ادائیگی کی بجائے اکثر درخواست مسترد کر دیتی ہیں لیکن اس دوران صارفین کا ذاتی ڈیٹا ان کے قبضے میں آ جاتا۔ بعد ازاں یہی ڈیٹا عوام کو بلیک میل کرنے اور ہراساں کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ جولائی 2023 میں راولپنڈی کے علاقے چاکرہ کے ایک نوجوان کی ان لون ایپ کا قرض واپس کرنے میں ناکامی اور متعلقہ کمپنی کی جانب سے ہراسیت اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہونے کے بعد حکومت کی توجہ ملک میں غیرقانونی لون ایپس کے مسئلے کی جانب مبذول ہوئی۔ بعدازاں ایسی کئی ایپس پر پابندیاں عائد کی گئیں جو شہریوں کو غیرقانونی طریقے سے قرض دیتیں اور پھر اُس پر کئی گنا سُود وصول کرتی تھیں۔
تاہم ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پاکستان میں ایسی ایپس کی مجموعی تعداد میں سے تقریباً 10 سے 15 فیصد اب بھی موجود ہیں جو شہریوں کو غیرقانونی طور پر قرض فراہم کر رہی ہیں۔
سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور نیشنل کرائم کنٹرول انویسٹی گیشن ایجنسی کے مطابق اگرچہ زیادہ تر ایپس کو بند کر دیا گیا ہے تاہم کچھ ایپس تاحال فعال ہیں۔این سی سی آئی اے کے حکام نے بتایا ہے کہ ’پاکستان میں غیرقانونی طور پر کام کرنے والی کچھ ایپس 1800 فیصد تک سُود وصول کر رہی ہیں۔ ایسی ایپس کی آج بھی نشان دہی کی جاتی ہے اور اُن کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے۔‘تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی سختیوں کے باوجود یہ ایپس بظاہر کس طرح کام کر رہی ہیں اور اس حوالے سے حکومت کے رُولز اور ریگولیشنز کیا ہیں؟
ایس ای سی پی حکام کے مطابق ان کا ادارہ دو طریقوں سے اِن ایپس کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے۔ پہلا، شکایات موصول ہونے پر اور دوسرا اپنی مانیٹرنگ کے ذریعے۔شکایت اگر دُرست ثابت ہو جائے اور متعلقہ کمپنی یا ایپ تعاون نہ کرے تو اُس کے خلاف کارروائی شروع کر دی جاتی ہے اور اُس کمپنی کا نام رجسٹر آف کمپنیز کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے۔اس کے بعد ایس ای سی پی کی جانب سے ایسی کمپنیوں کو اپنی ویب سائٹ پر ’غیر مجاز کمپنیوں‘ کی فہرست میں شامل کرنا اور فائنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو آگاہ کرنے کا مرحلہ ہوتا ہے۔
فائنانشل مانیٹرنگ یونٹ اِن معلومات کو ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں تک پہنچاتا ہے جس کے بعد ایپ بلاک کر دی جاتی ہے۔تاہم ایس ای سی پی واضح کرتا ہے کہ وہ صرف ان کمپنیوں کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے جو پاکستان میں رجسٹرڈ اور آپریٹ کر رہی ہوں۔ وہ اگر بین الاقوامی سطح پر رجسٹر ہوں تو اُن کے خلاف ادارے کے اختیارات محدود ہو جاتے ہیں۔
تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریگولیٹرز کی سخت نگرانی کے باوجود پاکستان میں غیرقانونی لون ایپس کیسے کام کر رہی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سائبر سیکورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں کام کرنے والی اس طرح کی ایپس کا سرور اکثر امریکہ میں ہوتا ہے۔یہ ایپس چونکہ بیرونِ ملک کے سرورز پر کام کرتی ہیں اس لیے یہ کسی نہ کسی طرح اپنا دھندہ جاری رکھتی ہیں۔ تاہم پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ایسی ایپس کو بلاک کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔‘سوشل میڈیا پر اگرچہ ان ایپس کے اشتہارات چلتے رہتے ہیں، لیکن اگر یہ پلے سٹور پر دستیاب نہ ہوں اور متعلقہ ادارے انہیں پاکستان میں بلاک کر دیں تو اِن کے لیے یہاں کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ’پاکستان میں لوگوں کو چونکہ فوری طور پر قرض کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے یہ غیرقانونی ایپس اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ پاکستان میں اگر چھوٹے پیمانے پر بینک یا دیگر قانونی ادارے شہریوں کو یہ سہولت فراہم کریں تو غیرقانونی ایپس کے لیے اپنے کاروبار کو جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔‘
