عمران نے آؤٹ سائیڈرز کو عہدے دے کر PTI  کیسے برباد کی ؟

 

 

 

بطور کپتان اور بانی پی ٹی آئی ہمیشہ میرٹ پر اپنی ٹیم سلیکٹ کرنے کے دعویدار عمران خان نے آؤٹ سائیڈرز کو بڑے بڑے عہدے دے کر پی ٹی آئی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ناقدین کے مطابق عمران خان بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ کوئی پارٹی رہنما حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے قابل نہیں۔ اسی لئے پہلے انھوں نے اپنی پارٹی وکلاء کے حوالے کرنے کے بعد اب بیگانوں کے کندھوں پر بھروسہ کرتے ہوئے آؤٹ سائیڈ رز کو عہدے دینے شروع کر دئیے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن اتحاد کی احتجاجی تحریک کی سربراہی دینا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

 

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی کارکردگی سے مایوس عمران خان اب بندوق چلانے کے لیے محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل کے کاندھوں کو استعمال کرنے کے خواہاں ہیں حالانکہ بہت زیادہ پرانی بات نہیں، جب محمود اچکزئی کے چادر لینے کے اسٹائل کو عمران خان بھرے جلسوں میں تضحیک کا نشانہ بناتے تھے۔اسی طرح اختر مینگل پی ٹی آئی حکومت سے اس لئے الگ ہوئے تھے کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے سے عمران خان مکر گئے تھے لیکن سیاسی مفادات نے ان سب کو ایک بار پھر قریب کر دیا ہے۔ تاہم یہاں پر اصل سوال یہ ہے کہ سب سے مقبول پارٹی کا دعویٰ کرنے والی پی ٹی آئی کو آخران بیساکھیوں کی ضرورت کیوں پیش آئی، جنہیں خود ہمیشہ سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔

عمران خان کے قریبی ذرائع کے بقول بانی پی ٹی آئی کام نکالنے کے لیے گدھے کو بھی باپ بنانے پر تیار ہو جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ وہ اس شخص کے بارے میں ماضی میں کیا کہتے رہے ہیں۔ اس کی کلاسک مثال چوہدری پرویز الہی کی تھی، جنہیں وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈا کو قراردیا کرتے تھے۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ انہوں نے وقت پڑنے پر کس طرح پرویز الہی کو سینے سے لگایا۔ حتی کہ اپنی پارٹی کا صدر بنادیا۔

اسی طرح مولانا فضل الرحمن کے بارے میں جتنے ناز یبا الفاظ عمران خان نے جلسوں میں استعمال کیے، کسی سیاسی مخالف نے ایک دوسرے کے خلاف نہیں کیے ہوں گے۔ لیکن وقت پڑنے پر نہ صرف وہ مولانا کے در پر بھی سجدہ ریز ہو گئے بلکہ پوری پارٹی کو مولانا کی اقتدا کرنے کا حکم دے دیا۔ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے اپوزیشن اتحاد کی ضرورت محسوس ہوئی تو عمران خان کی پہلی چوائس مولانا فضل الرحمن ٹھہرے۔ لیکن گھاگ سیاست دان اب تک عمران خان کے ہاتھ نہیں لگ سکے ہیں۔ کل تک مولانا کی سٹریٹ پاور کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے والے عمران خان اب اسی سٹریٹ پاور کو اپنی تحریک کا سہارا بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن امید بر نہیں آرہی۔

 

اس مایوسی میں لے دے کر عمران کے پاس محمود اچکزئی بچے ہیں۔ چنانچہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونے کے مصداق عمران خان پارٹی کا سب کچھ انہیں سونپنے کے لیے تیار ہیں۔ پہلے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے نام سے بنائے گئے ایک نوزائیدہ اپوزیشن اتحاد کا سر براہ انہیں بنایا گیا۔ بعد ازاں عمران خان نے اچکزئی کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نامزد کر دیا۔ تاہم اس پر پارٹی کے اندر سے اختلافی آوازیں اٹھیں اور اسے ایک طرح سے پارٹی رہنماؤں کی تذلیل اور ان پر عدم اعتماد سے تعبیر کیا گیا تو عمران خان نے وقتی طور پر یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ناقدین کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ ایک سیٹ والے اچکزئی اور ان کی پارٹی ملکی سیاست میں اپنی حیثیت کھو رہی ہے۔ چنانچہ انہیں بھی کسی کاندھے کی ضرورت ہے۔ باقی اگر عمران خان ان کی نقلیں اتار کر مذاق اڑایا کرتے تھے تو جو عہدے انہیں پیش کیے جارہے ہیں، اس کے آگے ماضی کی کردار کشی کیا معنی رکھتی ہے؟

 

تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان ان اہم ترین عہدوں پر پارٹی رہنماؤں کی جگہ آؤٹ سائیڈرز کو کیوں لانا چاہتے ہیں؟ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ فی الوقت پی ٹی آئی کے موجودہ رہنماؤں میں سے کوئی ایسا نہیں جو ان عہدوں پر بیٹھ کر حکومت کو ٹف ٹائم دے سکے۔ جبکہ اچکزئی اور راجہ ناصر عباس کو آگے کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ حکومت کے لیے ایک نیا محاذ کھل جائے گا۔ یعنی خان دوسروں کے گوشت پر اپنا شکرا پالنا چاہتا ہے۔ ناقدین کے مطابق شاید گنیز بک کے منتظمین کی نظر اس طرف نہیں پڑی ورنہ دنیا کے سب سے بڑے ”بے اصول سیاستدان“ کے طور پر اب تک عمران خان کا نام کتاب میں درج ہو چکا ہوتا۔

ڈونکی راجہ کی بے شرمی کی کہانی، رؤف کلاسرا کی زبانی

مبصرین کے بقول اس وقت عمران خان کی پوزیشن ایسی ہی ہے جیسے کسی گھر کا کمزور سر براہ اپنے جوان بیٹوں کی موجودگی میں اپنے گھر اور خاندان کے معاملات پڑوسیوں یا محلے داروں کے حوالے کر دے۔اسی طرح پارٹی قیادت سے مایوس ہو کر عمران خان نے ساری پارٹی وکلا کے حوالے کر دی۔ جس کے پیچھے سوچ یہ تھی کہ پی ٹی آئی کے ہومیو پیتھی رہنماؤں کے مقابلے میں یہ وکلا حکومت کو منہ دینے کے لیے زیادہ موزوں ہیں اور حکومت کالے کوٹوں کے سامنے بے دست و پا ہو جائے گی۔ نتیجتاً سیاستدانوں کی جگہ پارٹی پر وکلا کا قبضہ ہو گیا۔ اس فیصلے کے خلاف پارٹی کے اندر سے بھی دبی دبی آوازیں اٹھیں  لیکن بادشاہ سلامت کے فیصلے کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت کس میں تھی؟ چنانچہ گزشتہ الیکشن میں ایسے وکلا کو بھی ٹکٹ مل گئے ، جنہیں کوئی جانتا بھی نہیں تھا، یا دوسری پارٹیوں میں ان کی حثیت صفر ہو چکی تھی۔ سب نے الیکشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور رکن پارلیمنٹ اور سینیٹر بننے میں کامیاب ہو گئے جبکہ پارٹی کے حقیقی ورکر سڑکوں پر مارے مارے پھرت دکھائی دئیے۔

تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کی پارٹی کے سیاسی رہنماؤں کو پیچھے کر کے وکلا کو آگے لانے کی حکمت عملی کامیاب ہوئی؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ پی ٹی آئی رہنما تو سمجھتے ہیں کہ پارٹی کو آج اس حال میں پہنچانے والے یہی وکلا ہیں۔ جنھوں نے پی ٹی آئی کا دھڑن تختہ کر دیا ہے۔

 

Back to top button