جسٹس ڈوگر کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا مستقل چیف جسٹس بننا یقینی کیسے ہو گیا؟

سپریم کورٹ  نے ججز کے تبادلے کو آئینی قرار دے کر اسلام آباد ہائیکورٹ سے عمرانی دور کے خاتمے کی نوید سنا دی۔ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے عمراندار ججز کی جانب سے شدید مخالفت کے باوجود لاہور ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہو کر جانے والے جسٹس سرفراز ڈوگرکا اسلام آباد ہائی کورٹ کا مستقل چیف جسٹس بننا یقینی ہو گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق جسٹس ڈوگر کے مستقل چیف جسٹس بننے کے بعد جہاں ایک طرف اسلام آباد ہائیکورٹ سے عمرانی دور کا خاتمہ ہو گا وہیں بانی پی ٹی آئی کو ماضی میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے ملنے والے غیر آئینی ریلیف کے آگے بھی بند باندھنے میں مدد ملے گا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی جانب سے دائر کی گئیں درخواستوں سمیت 11 درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ کی جانب سے تین دو کے تناسب سے سنائے گئے مختصر حکم نامے میں جہاں ججز کے تبادے کو آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 200 کے تحت صدر کو ججز کی منتقلی کا مکمل اختیار حاصل ہے اور ججز کی منتقلی نئی تقرری نہیں سمجھی جا سکتی اور نہ ہی ججز کے ٹرانسفر سے عدلیہ کی آزادی متنازع ہوتی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ صدر مملکت ججز کی سنیارٹی اور مستقل یا عارضی منتقلی کی وضاحت کریں اور سنیارٹی سے متعلق جلد فیصلہ کریں۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر بطور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اپنا کام جاری رکھیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کی سربراہی کا خواب دیکھنے والے عمراندار ججزکے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔

تاہم پی ٹی آئی کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے والے قانونی ماہرین کے مطابق ‘اعلٰی عدلیہ میں جو ججز متحرک تھے ان کو سائڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ ملک میں سیاسی عمل ختم کر دیا گیا ہے اور کچھ سیاسی جماعتیں بااختیار حلقوں کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں۔’ ’26 ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی بڑی حد تک کمپرومائزڈ ہو چکی ہے ان کا مزید کہنا ہے کہ گزشتہ دس برسوں سے بار ایسوسی ایشنز پر سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب وکلا عدلیہ کی آزادی کے لیے سڑکوں پر نکلنے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔’ ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اعلی عدلیہ مزید کمزور ہو گئی ہے۔تاہم لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شاہ خاور کا کہنا ہے کہ آئین میں ججز کی دوسری عدالت منتقلی کا طریقہ کار موجود ہے۔ پہلے جس جج کو منتقل کیا جانا ہو تو اس جج کی رضامندی لی جاتی ہے جس کے بعد جس ہائی کورٹ میں وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے اس کے چیف جسٹس کی اور پھر جس ہائی کورٹ میں اس کو بھیجا جانا ہے اس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ مراحل مکمل ہونے کے بعد جب حکومت کی طرف سے سمری صدر مملکت کو بھجوائی جاتی ہے تو وہ پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت کے بعد اس جج کی ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا۔شاہ خاور کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل کیا گیا ہے اس سے پہلے سندھ ہائی کورٹ کے کچھ ججز کو بھی بلوچستان ہائی کورٹ بھیجا گیا تھا۔ اس لئے ہمیں ہر آئینی معاملے کو سیاسی بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ میں شامل دو اقلیتی ارکان جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں صدارتی نوٹیفکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے درخواستیں منظور کرنے کی سفارش کی۔ججز کے اختلافی نوٹ کے مطابق تبادلہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تقرری کے دائرے میں آتا ہے، اور ججز کے تبادلے کا یہ طریقہ کار آئین کی روح کے خلاف ہے۔اختلافی نوٹ میں قرار دیا گیا ہے کہ آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 200 کی شق دو شق ایک کے تابع ہے اور دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ان دونوں شقوں کی تشریح ہم آہنگی کے اصول کے تحت کی جانی چاہیے، جس کے مطابق دونوں شقوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے پڑھا جائے تاکہ کوئی تضاد یا بے معنی نتیجہ نہ نکلے۔

اختلافی نوٹ میں زور دیا گیا ہے کہ آرٹیکل 200 کی شق ایک اور شق دو ججز کی مستقل تبدیلی کی اجازت نہیں دیتیں۔ یہ دونوں شقوں سے واضح ہے کہ ججز کی تبدیلی صرف عارضی بنیادوں پر ہو سکتی ہے، نہ کہ مستقل طور پر۔اختلافی نوٹ میں دونوں ججز نے وکیل کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ججز کی تقرری یا تبدیلی میں کردار ادا کیا۔ ججز نے قرار دیا کہ آئین کے تحت ایجنسیوں کا ججز کی تقرری یا تبدیلی میں کوئی کردار نہیں۔ وہ ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں اور ایگزیکٹو، عدلیہ، یا آئینی اداروں پر حاوی نہیں ہو سکتی۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر وکیل کا دعویٰ درست بھی مان لیا جائے تو یہ ایک تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ صدر مملکت کا نوٹیفکیشن غیر آئینی، غیر قانونی اور باطل ہے۔ تمام آئینی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ ججز کے مابین تنازع کا آغاز اس وقت ہوا جب یکم فروری 2025 کو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے جسٹس سرفراز ڈوگر کو بذریعہ ٹرانسفر اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعینات کیا۔ اُن کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ سے جسٹس خادم حسین سومرو اور بلوچستان ہائیکورٹ سے جسٹس محمد آصف کو بھی اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کیا گیا۔اس ٹرانسفر کے بعد اِسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اُس وقت چیف جسٹس، جسٹس عامر فاروق کے سامنے ریپریزنٹیشن فائل کی کہ بذریعہ ٹرانسفر ججز لائے جانے سے اُن کی سنیارٹی متاثر ہو سکتی ہے۔ لیکن چیف جسٹس کی جانب سے ریپریزنٹیشن مسترد کر دی گئی جس کے بعد اِسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ جمعرات کو جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ان درخواستوں کی 19 سماعتوں کے بعد اپنا فیصلہ تین ججز کے حق میں صادر کر دیا ہے۔ جس سے عمراندار ججز کو ایک بار پھر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلوں کے خلاف درخواست گزاروں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز  جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار ، جسٹس ثمن رفعت آغا اور جسٹس سردار اسحاق کے علاوہ بانی پی ٹی آئی عمران خان بھی شامل تھے۔سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان ججز کی ٹرانسفر کو چیلنج کیا تھا کیونکہ نیب کے جن کیسز میں انھیں سزا سنائی گئی ہے ان کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہی زیر سماعت ہیں۔

Back to top button