میجر عدنان نے جان دے کر بہادری کی داستان کیسے رقم کی؟

 

 

 

2 ستمبر 2025 کو خیبر پختون خوا کے ضلع بنوں میں واقع ایک فوجی مرکز پر طالبان دہشت گردوں کے حملے کی وائرل فوٹیج میں میجر عدنان اسلم کی اپنے زخمی ساتھی کی جان بچانے کی جدوجہد کے مناظر سامنے آنے کے بعد جہاں سرکاری سطح پر انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے وہیں سوشل میڈیا پر انھیں بہادری کے اعلیٰ اعزاز دینے کے مطالبات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

 

پاک فوج کے سپیشل سروسز گروپ سے تعلق رکھنے والے کمانڈو میجر عدنان اسلم اس حملے کے دوران شدید زخمی ہونے کے بعد زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے اور 9 ستمبر کو ان کی تدفین عمل میں آئی۔

راولپنڈی میں میجر عدنان کی نماز جنازہ میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے علاوہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی شرکت کی۔ 31 سالہ میجر عدنان کا تعلق 135 لانگ کورس سے تھا۔ انہوں نے کاکول ملٹری اکیڈمی کے علاوہ برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی سے بھی عسکری تعلیم حاصل کی تھی جو دنیا کے معروف فوجی اداروں میں سے ایک ہے۔

 

میجر عدنان اسلم اپنے والدین کے پہلے بیٹے نہیں جو جوانی میں اگلے جہان رخصت ہوئے۔ اس سے پہلے انکا بھائی رضوان بھی ایک حادثے میں جان گنوا بیٹھا تھا۔ میجر عدنان چھٹی پر تھے اور راولپنڈی واپس آنے سے قبل ان کا پڑاؤ بنوں میں تھا۔ اس دوران بنوں میں فوجی مرکز پر حملہ ہوا تو جوابی آپریشن کے لیے ایس ایس جی کمانڈوز کی ضرورت پڑی۔ ایسے میں میجر عدنان اپنی چھٹی کینسل کر کے موقع پر پہنچ گئے اور بہادری کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔

 

بنوں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری مرکز کے سربراہ ذوالفقار خان کا کہنا ہے کہ ایس ایس جی کے کمانڈوز نے دہشت گردوں کا بھر پور مقابلہ کیا اور کسی کو بچ کر نہیں جانے دیا۔ اس حملے کے آغاز میں 5 کانسٹیبلری اہلکار اپنے کوارٹرز میں شہید ہوگئے تھے۔ اس کے بعد میجر عدنان اسلم اور ان کے ساتھیوں نے موقع پر پہنچ کر دہشت گردوں کو گھیر لیا۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں اپنے ساتھی کی جان بچانے کی کوشش میں اپنی جان دینے والے میجر عدنان اسلم دو دہشت گردوں کا خاتمہ کر چکے تھے، اس دوران ایک دہشت گرد کی گولی میجر عدنان کی ٹانگ میں لگی تھی۔ وہ دہشت گرد دیوار کی اوٹ سے فائرنگ کر رہا تھا، گولی لگنے کے بعد جب میجر عدنان نے دیکھا کہ ان کے ساتھی بھی خطرے کا شکار ہے تو انھوں نے اسے بچانے کے لیے ڈھال بننے کی کوشش کی۔ اس دوران انھیں ایک اور گولی لگ گئی اور وہ شدید زخمی ہو گئے۔

 

تاہم اسکے باوجود میجر عدنان اپنے ساتھی کی جان بچانے کے لیے اسکے اوپر لیٹ گئے۔ اس دوران ایس ایس جی کمانڈوز کے ہاتھوں بچ جانے والا آخری دہشت گرد  تھوڑا پیچھے ہٹا اور اس نے ایک ہینڈ گرینڈ نکال کر پھینکنے کی کوشش کی۔ لیکن اس دوران بکتر بند گاڑی کے پیچھے موجود میجر عدنان اسلم کے ساتھیوں نے اس پر فائرنگ کر دی جس سے اس کے پاس موجود ہینڈ گرینڈ اور اس کی خودکش جیکٹ بھی پھٹ گئی۔

 

اس معرکے میں شدید زخمی ہونے کے بعد میجر عدنان اسلم کو پہلے پشاور اور پھر راولپنڈی کے ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا۔ بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ کبھی ہوش میں آتے اور کبھی بے ہوش ہو جاتے۔ ان کا بلڈ گروپ اے نیگیٹو تھا لہذا ان کی جان بچانے کے لیے ان کے دوستوں، رشتہ داروں، اور ساتھیوں نے چالیس خون کی بوتلوں کا انتظام کیا تھا۔ میجر عدنان سات روز موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ اس دوران ایک بہت مشکل وقت تب آیا جب ڈاکٹرز نے بتایا کہ عدنان کے جسم میں ٹانگ کے زخم کی وجہ سے زہر پھیل چکا ہے اور ان کی زندگی بچانے کے لیے ان کی ٹانگ کاٹنا پڑے گی۔

 

تاہم زندگی سے بھرپور میجر عدنان اسلم کی ٹانگ کاٹنے کے حوالے سے خاندان کا کوئی فرد بھی تیار نہیں تھا۔ چنانچہ ٹانگ کا انفیکشن اور ذیادہ بگڑ گیا اور اسی کشمکش میں میجر عدنان زندگی کی بازی ہار گئے۔

 

یاد رہے کہ میجر عدنان اسلم کے خاندان نے کئی دہائیوں قبل سوات چھوڑ کر راولپنڈی میں رہائش اختیار کی تھی۔ عدنان اسلم بچپن ہی سے ایک تربیت یافتہ ایتھلیٹ اور کھلاڑی تھے۔ ‘ان کے ایک ماموں فرمان ایک مشہور زمانہ ایتھلیٹ تھے جو مارشل آرٹ اور پیرا گلائیڈنگ کی تربیت دیتے تھے۔ عدنان فوج میں جانے سے پہلے اپنے ماموں کی اکیڈمی میں جاتے تھے۔ میجر عدنان نے سوگواروں میں دو بچے اور بیوہ چھوڑی ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا ڈھائی سال کا ہے جب کہ بیٹی صرف چھ ماہ کی ہے جسے پہلی مرتبہ دیکھنے کے لیے انہوں نے چھٹی لی تھی لیکن گھر پہنچنے سے پہلے ہی بنوں حملے میں جام شہادت نوش کرگئے۔ میجر عدنان کی والدہ اور ان کے والد بھی ان کا انتظار کر رہے تھے لیکن اس بار ان کے بیٹے کا جسد خاکی ہی گھر پہنچ سکا۔

Back to top button