ٹرمپ نے الیکشن سے پہلے ہی بائیڈن کو شکست کیسے دے دی؟
ٹرمپ انتخابی دنگل سے قبل ہی بائیڈن کو چت کرنے میں کامیاب ہو گئے، ٹرمپ کی جانب سے مسلسل تنقید اور پارٹی رہنماؤں کے دباؤ کے بعد امریکی صدارتی الیکشن کے لیے ڈیموکریٹس کے امیدوار اور موجودہ صدر جو بائیڈن صدارتی انتخاب کی دوڑ سے دستبردار ہو گئے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے دوبارہ الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ فیصلہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔‘جو بائیڈن کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کے صدارتی انتخابات میں چار ماہ رہ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ صدر بائیڈن کو انتخابات سے دستبردار ہونے کے لیے چند ہفتوں سے مسلسل دباؤ کا سامنا تھا جس کا آغاز ایک ٹی وی مباحثے سے ہوا جس نے ان کی صحت کے بارے میں خدشات کو جنم دیا۔
تاہم امریکا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی امریکی صدر نے دوبارہ الیکشن لڑنے کے لیے الیکشن میں حصہ نہ لیا ہو اور دوبارہ منتخب ہونے سے قبل ہی اپنے منصب سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہو۔ 55 برس قبل 1968 میں اس وقت کے امریکی صدر لنڈن جانسن نے محض ایک سال صدر کے منصب پر رہنے کے بعد یہ عہدہ چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔ 1968 امریکی تاریخ کے لیے یہایک مشکل سال تھا کیونکہ اس سال امریکا میں سیاسی بحران انتہا پر تھا اور پرتشدد واقعات بھی تواتر کے ساتھ رونما ہو رہے تھے۔
تاہم اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ 55سال بعد ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے اور صدر بائیڈن نےصدارتی دوڑ کے لیے اپنی نائب کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ تاہم ابھی تک اس بات کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا کہ اس الیکشن میں ڈیموکریٹس کا صدارتی امیدوار کون ہوں گے لیکن اگر کملا ہیرس صدارتی امیدوار بننے کے بعد کامیاب ہو جاتی ہیں تو وہ امریکی تاریخ کی پہلی خاتون صدر ہوں گی اوریہ امریکہ کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کوئی سیاہ فام امریکی صدارتی امیدوار ہوں گی۔
ؐمبصرین کے مطابق توقع ہے کہ نائب صدر کملا ہیرس یوکرین، چین اور ایران جیسے اہم مسائل پر جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی پر قائم رہیں گی، لیکن اگر صدر بن گئیں تو وہ غزہ جنگ پر اسرائیل کے ساتھ سخت لہجہ اختیار کر سکتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق عالمی ترجیحات کے نقطہ نظر سے کملا ہیرس کی صدارت دوسری بائیڈن انتظامیہ کی طرح ہو گی۔تاہم وہ مختلف امور میں بائیڈن سے زیادہ متحرک ہو سکتی ہیں تاہم کملا کے صدر بننے کے بعد بائیڈن کی خارجہ پالیسی میں فوری طور پر کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں۔‘ مبصرین کے مطابق کملا ہیرس نے اشارہ دیا ہے کہ وہ نیٹو کے لیے بائیڈن کی حمایت سے انحراف نہیں کریں گی اور روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی حمایت جاری رکھیں گی۔ یہ نیٹو کے ساتھ امریکی تعلقات کو بنیادی طور پر تبدیل کرنے کے سابق صدر ٹرمپ کے وعدے اور مستقبل میں یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کے بارے میں ان شکوک و شبہات کے بالکل برعکس ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق کملا کے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد ہونے سےڈیموکریٹس امید کر رہے ہیں کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف بنانے میں زیادہ موثر ثابت ہوں گی کیونکہ بائیڈن کی صدارت کے دوسرے نصف حصے میں کملا ہیرس نے چین اور روس سے لے کر غزہ تک کے مسائل پر اپنا پروفائل بنایا اور بہت سے عالمی رہنماؤں کی نظروں میں آئیں۔