عمران کا آرمی چیف کو لکھا گیا خط پھوکا فائر کیوں ثابت ہوا؟

فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پس پردہ ڈیل سے انکار کے بعد بانی پی ٹی آئی عمران خان نے آرمی چیف کو کھلا خط لکھ کر دوبارہ گود لینے کیلئے سر عام ترلے شروع کر دئیے ہیں۔ تاہم سیکیورٹی ذرائع کے مطابق عسکری قیادت کا سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ حتمی ہے اس لئے اس طرح کے خطوط کا فوج کی طرف سے نہ تو کوئی جواب دیا جائے گا اور نہ ہی ایسے خطوط سے عسکری قیادت کے موقف میں کسی قسم کی تبدیلی آئے گی۔ سیکورٹی ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے خط میں عسکری قیادت پر جس طرح کی بے بنیاد الزام تراشی کی گئی ہے وہ قابل مذمت اور باعث افسوس ہے۔ تاہم اس طرح کی بیان بازی سے پاک فوج اور عوام میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے سازشی عناصر ناکام ہونگے۔
خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لکھے گئے ’کھلے خط‘ میں مطالبہ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو ’اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام اور فوج کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے اور فوج کی بدنامی کو کم کیا جا سکے۔‘ خط میں عمران خان کا مزید کہنا ہے کہ ’دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو لیکن افسوسناک امر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں خلیج دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔‘ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ کھڑی ہے جو دو بار کے این آر او زدہ ہیں۔
آرمی چیف سے بطور سابق وزیر اعظم مخاطب ہو تے ہوئے عمران خان کا خط میں مزید کہنا ہے کہ ‘’ملکی استحکام اور سلامتی کے لیے ناگزیر ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان کی خلیج کم ہو۔‘ ’اس بڑھتی خلیج کو کم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ فوج اپنی آئینی حدود میں واپس جائے سیاست سے خود کو علیحدہ کرلے اور اپنی معین کردہ ذمہ داریاں پوری کرے۔ عمران خان کا مزید کہنا ہے کہ یہ کام فوج کو خود کرنا ہو گا ورنہ یہی بڑھتی خلیج قومی سلامتی کی اصلاح میں فالٹ لائنز بن جائیں گی۔‘
سوشل میڈیا پر شیئر کردہ خط کی تفصیلات میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ فروری 2024 کے عام انتخابات کے دوران ’جس انداز میں ایجنسیاں پری پول دھاندلی اور نتائج کنٹرول کرنے کے لیے سیاسی انجینئرنگ میں ملوث رہیں اس نے قوم کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’میجر، کرنل سطح کے افراد کی جانب سے عدالتی احکامات کی دھجیاں بکھیرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں کو جوتے کی نوک پر رکھا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے پوری فوج پر نزلہ گر رہا ہے۔‘
عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو لکھے گئے خط کے مندرجات سامنے آنے کے بعد سیاسی حلقوں کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی دھلائی جاری ہے۔ مبصرین کے مطابق سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی جانب سے فوج مخالف کمپینز چلانے کے بعد اب عمران خان خطوط لکھ کر بے بنیاد الزام تراشی کر کے عسکری قیادت کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان کے خط کا مقصد ’فوج اور عوام میں فرق ڈالنا، فوج اور اُس کی کمان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا اور فوج کو کمزور کرنا ہے۔‘انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر فوج کمزور ہوتی ہے تو کیا خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت رہے گی یا ان کی حکومت ہوگی جو سرحد پار بیٹھے ہیں۔ ممکن ہے پی ٹی آئی کے بانی ’دانستہ طور پر پاکستان کو اس حادثے سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔‘
سیاسی تجزیہ کارچیف جسٹس کے بعد بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مسلح افواج کے سربرا جنرل عاصم منیر کے نام مکتوب اور اسکی ٹائمنگ کو اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق سوالات کے مندرجات پر جانے سے پہلے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ائین کے تحت کوئی شخص، سیاسی لیڈر یا سابقہ حکومتی عہدے دار حالات اورسیاسی معاملات پر ایسا کوئی عمل کر سکتا ہے اور کیا فوجی ادارے کے سربراہ کو ایسا کوئی خط لکھنا آئین کے منافی نہیں اور کیا ایسے کسی خط کا کوئی جواز بنتا ہے۔ سلمان غنی کے مطابق اگر خود بانی پی ٹی آئی عمران خان کے حالات اور طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ وہ ریاست اور حکومت پر اپنے تمام ممکنہ آپشنز بروئے کار لانے کے بعد مایوسی کا شکار ہیں اور اب آخری حربے کے طور پر ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ جس کا جواب تو انہیں خود معلوم ہے مگر وہ اپنے روایتی انداز میں خود ریاست اور اداروں کا امتحان لینے کے درپے ہیں لیکن وہ یہ کہتے اور لکھتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ جنہیں مخاطب کر رہے ہیں وہ خود کو آئین کا پابند سمجھتے ہیں اور وہ اسکا جواب نہیں دینگے۔ خصوصا ًملکی معاملات اور سیاسی حالات پر فوج اپنا موقف واضح کر چکی ہے کہ اس کا سیاسی معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں اور اس حوالے سے حکومت موجود ہے اور سیاسی معاملات یا مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی کو اسی سے ہی رجوع کرنا ہو گا ۔
سلمان غنی کے بقول جہاں تک عمران خان کی جانب سے مسلح افواج سے یکجہتی کا سوال ہے تو اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بڑی ضرورت تو اس امر کی ہے کہ قوم کی طرح سیاسی جماعتیں اور قیادتیں یکسوئی اور سنجیدگی سے اپنی فوج کے پیچھے کھڑی ہوں لیکن اس کیفیت میں فوجی سپہ سالار کو قومی پالیسیوں پر نظر ثانی کی بات کر کے انکی آئینی پوزیشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ بھی اس لئے کیا جا رہا ہے کہ انہیں خوب معلوم ہے کہ دشمن کیخلاف جنگ میں فوج اور قوم کا ایک اعلانیہ اتحاد قائم ھے تاہم یہاں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف قوم اور فوج کے اتحاد کے باوجود وہ کون ہیں جو اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے ذریعے ریاست اور اسکے اداروں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اس حوالے سے کوئی مذاکراتی عمل شروع بھی ہوتا ہے تو اسے اڈیالہ جیل سے ختم کر دیا جاتا ہے جس کا نقصان حکومت کو کم اور خود انکو زیادہ ہو تا ہے اور آج بھی انکی جماعت بند گلی میں کھڑی نظر آ رہی ہے۔ سلمان غنی کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے ریاستی اداروں کے ذمہ داران کے نام مکتوب بھجوانے کا عمل یہ ظا ہر کرتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی پتے کھیل چکے ہیں اور انکے پاس کوئی سیاسی حل نہیں رہا اور اب وہ حکومت کی بجائے ریاست کو پکارتے نظر آ ر ہے ہیں تاہم انھیں وہاں سے بھی حوصلہ افزا جواب ملنے کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ خود انکا ان ریاستی اداروں بارے طرز عمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
بعض دیگر مبصرین کے مطابق آرمی چیف کو خط لکھنا عمران خان کی ایک مثبت سیاسی حکمت عملی ہے۔خط لکھ کر انھوں نے ایک ٹینشن تناؤ اور کشیدگی ہے اس کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم خط میں الزام تراشی اور بہتان بازی سے کشیدگی مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کا مستقبل سیاسی مفاہمت میں ہے۔ ملک میں اس وقت خط ڈپلومیسی ہو رہی ہے، کچھ دن پہلے عمران خان نے چیف جسٹس کو بھی خط لکھا تھا، اب انہوں نے آرمی چیف کو خط لکھ دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق عمران خان روزانہ خط آرمی چیف کو ہی دیتے ہیں، کبھی کوئی نام لیکر ، کبھی کوئی نام لیکر، تاہم اب عمران خان نے آرمی چیف کو ڈائریکٹ کھلا خط لکھ دیا ہے لگتا یہی ہے کہ ماضی کی طرح موجودہ عسکری قیادت کی جانب سے عمران خان کے اس خط کا بھی کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آئے گا