8 روپے فی یونٹ کمی کی بجائے حکومت نے پونے دو روپے پر ٹرخا دیا

وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمت میں 8  روپے فی یونٹ کمی کے مسلسل دعووں کے بعد اب کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا والی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے گرمیوں کی آمد پر بجلی کی قیمت میں 8 روپے کی بجائے ایک روپے 71 پیسے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا ہے جسے عوام دھوکہ دہی کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔

 اس حوالے سے عملی اقدامات کے فقدان کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں 8 روپے یونٹ کمی کے اعلانات پر عملدرآمد مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق مختلف آئی پی پیز کو کپیسٹی چارجز کی مد میں سالانہ تقریباً 1800 ارب روپے کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔ ان میں سے آدھے آئی پی پیز حکومت کے اپنے ہیں۔ جو’تقریباً 17 روپے فی یونٹ کپیسٹی چارجز کے طور پر وصول کر رہے ہیں۔ اگر صرف سرکاری آئی پی پیز کو ہی کپیسٹی چارجز کی مد میں ادائیگیاں روک دی جائیں تو تقریباً آٹھ روپے بجلی فوراً کم ہو سکتی ہے۔‘

ناقدین کے مطابق حکومت نے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے بڑے دعوے کر رکھے ہیں۔ ابھی 15 مارچ کو حکام کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کی بجائے دس روپے مزید لیوی لگا دی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ سرکار جلد ہی بڑے بجلی ریلیف کا اعلان کرے گی۔تقریباً آٹھ روپے فی یونٹ کے دعوے کیے جا رہے تھے، پہلے کہا گیا کہ 23 مارچ کو بجلی پر ٹیکس ریلیف کا اعلان کیا جائے گا لیکن اعلان نہیں ہو سکا۔ تاہم اب اعلان ہوا ہے کہ حکومت کی جانب سے نیپرا سے ایک روپے 71 پیسے فی یونٹ بجلی کم کرنے کی درخواست کی گئی ہے یعنی کہ کھودا پہاڑ، نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا۔تاہم حکومت ابھی بھی دعویٰ کر رہی ہے کہ بجلی صارفین کے لیے ریلیف پیکج پر کام جاری ہے اور آئی ایم ایف کی منظوری سے ریلیف پیکج کا اعلان کر دیا جائے گا۔

ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت بجلی صارفین کو ٹیکس ریلیف دے سکے گی یا نہیں اور کیا واقعی عوام کیلئے بجلی مزید سستی ہو سکتی ہے؟

معاشی ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے بجلی 8 روپے فی یونٹ سستی کرنے کے دعوے محض کھوکھلے اعلانات کے سوا کچھ نہیں کیونکہ پاکستان میں’200 یونٹس استعمال کرنے والے صارفین پر ٹیکس تقریباً 22 فیصد ہےجو کہ 35 سے 40 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس میں 18 فیصد سیلز ٹیکس، 9 فیصد تک انکم ٹیکس اور دیگر فکسڈ چارجز شامل ہیں۔موجودہ صورتحال میں بجلی پر ٹیکس ریٹ کم کرنے پر آئی ایم ایف آمادہ نہیں ہو گا، اس لئے حکومت کیلئے قلیل مدت میں عوام کو 8 روپے فی یونٹ کا ریلیف دینا تقریباً ناممکن ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کیلئے آٹھ روپے فی یونٹ بجلی ریٹ کم کرنا ممکن ہے لیکن اس کے لیے دیر پا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی دس روپے بڑھائی گئی۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدن کی بنیاد پر بھی اگر بجلی ریٹ کم ہو سکتا ہے تو وہ صرف تقریبا 1.71 وپے فی کلو واٹ ہے۔ اس لئے سمجھ نہیں آتی کہ ’سرکار کس بنیاد پر دعوے کر رہی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں مکمل پاور کپیسٹی کا 20 فیصد چائنیز آئی پی پیز کی ملکیت ہے۔ اگر ان کے ساتھ قرضوں کو ری شیڈول کر لیا جائے تو تقریباً پونے تین روپے فی یونٹ تک کمی کی جاسکتی ہے۔‘

پنجاب کے سرکاری ہاسپٹلز کی نرسیں ملک چھوڑ کر کیوں بھاگنے لگیں؟

ان کے مطابق: ’اگر بجلی کا استعمال پانچ فیصد تک بڑھا دیا جائے تو بھی ایک روپے 17 پیسے فی کلو واٹ بجلی کا ریٹ کم کیا جا سکتا ہے۔ کیپٹو پاور پلانٹس کی پیداروی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اگر کیپٹو پاور پلانٹس کی بجائے گیس ایسے آئی پی پیز کو دی جائے جن کی پیداواری صلاحیت بہتر ہے تو تقریباً تین روپے 35 پیسے فی کلو واٹ بجلی سستی کی جا سکتی ہے۔

ماہرین کے بقول ملک میں’بجلی چوری اور ریکوری کے نقصانات کا تخمینہ تقریبا 11.43 فیصد ہے، اگر اسے پانچ فیصد کم کر لیا جائے تو ایک روپے 90 پیسے فی کلو واٹ بجلی سستی ہو سکتی ہے۔ کے الیکٹرک کی طرح باقی ڈسکوز کی نجکاری سے بجلی نقصانات کم ہو سکتے ہیں جس سے بجلی کی قیمت میں مزید کمی واقع ہو سکتی ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تجاویز حکومت کو کئی مرتبہ دی جا چکی ہیں لیکن شاید سرکار کے لیے ان پر عمل درآمد کرنا مشکل ہے۔‘

تاہم بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں کمی میں بڑی رکاوٹ آئی ایم ایف ہے۔ حالانکہ مہنگی بجلی سے عام آدمی کی زندگی مشکل ہو چکی ہے اور فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، جس سے بےروزگاری بڑھ رہی ہے۔’اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 44 فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن سرکار اور آئی ایم ایف کو اس سے فرق نہیں پڑ رہا۔‘

Back to top button