کیا عمران خان اڈیالہ جیل میں ڈٹ کر کھڑا ہے یا ڈیل مانگ رہا ہے؟

 

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ ‘ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان’ کا نعرہ سننے میں تو اچھا لگتا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ جب سے عمران خان جیل میں قید ہوئے ہیں وہ باہر آنے کے لیے ڈیل کی تلاش میں ہیں اور تاثر ڈٹ کر کھڑا رہنے کا ہی دے رہے ہیں۔

روزنامہ نوائے وقت کے لیے اپنے تجزیے میں نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ اڈیالہ جیل میں بند اور طیش سے مغلوب بانی پی ٹی آئی مسلسل حالت جنگ میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا رویہ عاشقانِ عمران کو ’’ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان‘‘ کا نہایت فخر سے اعلان کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ضد سیاست میں کام نہیں آتی۔ اصل سیاست ایک قدم آگے بڑھنے کے بعد دو قدم پیچھے ہٹنے کا تقاضہ کرتی ہے کیو نکہ لچک اس کی بنیادی سرشت ہے۔یہ بات درست کہ عمران کو حکمرانوں کی نگاہ میں جائز اور ان کے مداحین کے بقول ناجائز بنیادوں پر طویل عرصے کی سزائیں سنادی گئی ہیں۔ ان سے نجات کے لئے عاشقانِ عمران نے کئی بار عوامی تحریک بھڑکانے کی کوششیں کی۔ لیکن ریاستی اداروں نے یکسو ہوکر انہیں چندقدم بھی آگے بڑھنے نہیں دیا۔ اپنی رہائی کے لئے عمران خان کو عدالتوں کی جانب ہی دیکھنا ہوگا جہاں مشکل میں گھری اپوزیشن جماعتوں کو ’’انصاف‘‘ ہمیشہ تاخیر سے ملتا ہے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ برے دنوں میں اچھے وقت کی آمد کو یقینی بنانے کے لئے سیاست دان کو سو طرح کے داؤپیچ سے کام لینا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف اس تناظر میں خوش نصیب ہے کیونکہ اس کے پاس سیاسی داؤپیچ کھیلنے کے لئے پارلیمان کی صورت ایک بہت بڑا پلیٹ فارم موجود ہے۔ انتخابی نشان سے محروم ہونے کے باوجود فروری 2024ء کے انتخابات کی بدولت وہ قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت کی صورت ابھری۔ لیکن یہ حیثیت مل جانے کے باوجود اس نے حکومت سازی سے احتراز برتا۔ پیپلز پارٹی کے جوان سال سربراہ اشاروں کنایوں میں پیغامات دیتے رہے کہ اگر تحریک انصا ف حکومت بنانا چاہے تو ان کی جماعت حکومت میں شامل ہوئے بغیر اس کی حمایت کے بارے میں سوچ سکتی ہے۔

آج بھی مسلم لیگ (نون) کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رشتے ایسی ہی حمایت پر مبنی ہیں جس کے عوض اس نے آصف زرداری کو ایک بار پھر ایوان صدر بھیج کر تاریخ بنائی۔ اس نے دو صوبوں میں اپنے نامزد کردہ افراد گورنر بنوائے اور بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کا منصب بھی حاصل کرلیا۔ لیکن تحریک انصاف ’’پارلیمانی‘‘ کے بجائے ’’اصولی بنیادوں پر عوامی سیاست‘‘ کی دعوے داری پر ڈٹی رہی۔ تاہم عوامی سیاست کا دعویٰ تب کھوکھلا اور بچگانہ سنائی دیتا ہے جب تحریک انصاف اسی ایوان میں بیٹھی نظر آتی ہے جسے کہ وہ فارم 47 کی پیداوار یعنی انتخابی دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔

نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ اگر فروری 2024 کے الیکشن تحریک انصاف کی نگاہ میں واقعتا دھاندلی زدہ تھے تو ان کے نتائج آجانے کے پہلے دن ہی اس کے منتخب قرار دئے اراکین کو قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے سے انکار کردینا چاہیے تھا۔ حلف اٹھالینے کے بعد تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے لئے لازمی ہوگیا کہ وہ ’’پارلیمانی‘‘ سیاست کا ہر ممکن داؤ پیچ استعمال کرتے ہوئے اچھے وقت کی راہ نکالیں۔ پارلیمانی سیاست پر لیکن توجہ سے اجتناب برتا گیا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کا ہونے والا ہر اجلاس ’’عمران کو رہا کرو‘‘ کے نعروں کی گونج میں جاری رہا۔ بدترین حالات کے باوجود اپنی سیاست میں نئی روح پھونکنے اور عوام کو متحرک کرنے کے لئے تحریک انصاف کو اپنے چند اراکین کی 9 مئی کے مقدمات میں نااہلی کے بعد ہوئے ضمنی انتخابات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔ لیکن عمران کی جانب سے یہ سوچ کر انتخابی اکھاڑے میں اترنے سے منع کر دیا گیا کہ حکومت تحریک انصاف کے امیدوار کو جیتنے نہیں دے گی۔

عمران کی ‘مارو یا مر جاؤ’ کی پالیسی کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے ؟

 

نصرت جاوید کے بقول مان لیتے ہیں کہ حکومت ایسا ہی ارادہ باندھے ہوئے ہے۔ لیکن اس مبینہ ارادے کو دنیا کے روبرو عیاں کرنے کے لئے تحریک انصاف کے لئے انتخابی اکھاڑے میں اترنا بھی تو لازمی تھا۔ ضمنی الیکشن کے بائیکاٹ کے بعد تحریک انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس تناظر میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہونا میری دانست میں سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔ اس کمیٹی کے روبرو حکومت ہی کے تعین کردہ آڈیٹر جنرل کی سرکاری محکموں میں ہوئے اخراجات پر اعتراضات کی رپورٹس رکھی جاتی ہیں۔ ان رپورٹس کے بغور مطالعے کے بعد اپوزیشن اراکین اہم ترین اعتراضات کو اپنا کر حکومت کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے جوابات عوام کے روبرو رکھے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ پارلیمان کے قیام کا کلیدی مقصد ہی حکمرانوں سے یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ میرے اور آپ کے دیے ٹیکسوں کو کس انداز میں خرچ کررہی ہے۔ لیکن یہ سوال اٹھانے کا حقیقی فورم قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی ہے۔ آڈیٹر جنرل نے شہباز حکومت کے پہلے سال کے دوران ہوئے مالی اخراجات کے بارے میں اپنی رپورٹ مکمل کرلی ہے۔ ایسے میں اگر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس کا جائزہ لیتیلے تو رونق لگ جاتی۔ تاہم تحریک انصاف نے جنید اکبر کو استعفیٰ دینے کا حکم دے کر حکومت کی ممکنہ دردسری کا خاتمہ کردیا ہے۔

Back to top button