نیا قانون یوتھیوں کے خلاف لایا جا رہا ہے یا بلوچ علیحدگی پسندوں کے؟
وفاقی حکومت نے عمران خان کے جارحانہ یوتھیوں سے نمٹنے کے لیے ایک نیا قانون متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت فوجی یا سول آرمڈ فورسز کسی بھی شر پسند کو 3 ماہ کیلئے ’حراست‘ میں لے سکیں گی۔ وفاقی حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے جس میں فوج اور سول آرمڈ فورسز کو دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے افراد کو 3 ماہ تک احتیاطی حراست میں رکھنے کا اختیار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
تاہم حکومتی ذرائع کا دعوی ہے کہ مجوزہ ترمیمی بل تحریک انصاف کے شر پسندوں کے خلاف نہیں بلکہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک چلانے والوں کے قلع قمع کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں مزید ترمیم کا بل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفیٰ شاہ نے بل غور کیلیے متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔ بل میں مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں قائم کرنے کی شقیں بھی شامل کی گئی ہیں، اینٹی ٹیررازم ایکٹ کی شق 11 ای میں یہی ترامیم دسمبر 2016 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملے کے بعد وقتی طور پر متعارف کرائی گئی تھیں جو ایک دہائی قبل ختم ہو گئی تھیں۔
بل کے مطابق ’قانون کی دفعہ 11 ای کی سابقہ ترامیم کو نئے بل میں دوبارہ شامل کرنے کا مقصد حکومت، مسلح افواج اور سول مسلح افواج کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے افراد کو حراست میں لینے کا ضروری اختیار دیا جانا ہے‘۔ یہ شق مصدقہ معلومات یا شک کی بنیاد پر مشتبہ افراد کو احتیاطی طور پر حراست میں رکھنے کی اجازت دے گی جس سے دہشت گردی کے منصوبوں کو انجام دینے سے پہلے ہی ناکام بنایا جاسکے گا۔ یہ ترمیم ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردی کے خلاف زیادہ موثر کارروائیاں کرنے کے لیے قانونی حمایت بھی فراہم کرے گی، اس سے مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان پر مشتمل جے آئی ٹیز کو جامع تحقیقات کرنے اور قابل عمل انٹیلی جنس اکٹھا کرنے میں مدد ملے گی‘۔
مجوزہ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ 2014 میں اے ٹی اے کی دفعہ 11 ای میں ترمیم کی گئی تھی جس میں حکومت اور مجاز مسلح افواج اور سول مسلح افواج کو دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث مشتبہ افراد کی احتیاطی حراست کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ تاہم یہ ترمیم ایک شق کے تابع تھی جس کے تحت اس کی مدت 2 سال تک محدود کر دی گئی تھی جس کی میعاد 2016 میں ختم ہو گئی تھی۔
مجوزہ ترمیمی بل میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس کے علاوہ موجودہ سیکیورٹی صورتحال کے لیے ایک مضبوط ردعمل کی ضرورت ہے جو موجودہ قانونی فریم ورک سے بالاتر ہو۔‘ اے ٹی اے کی مجوزہ شق میں کہا گیا ہے ’حکومت یا جہاں دفعہ 4 کا اطلاق کیا گیا ہو، مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کو ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری یا پھر پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سلامتی یا دفاع سے متعلق اس ایکٹ کے تحت کسی جرم میں مطلوبہ شخص کو 3 ماہ سے زائد عرصے کے لیے زیر حراست رکھنے کا اختیار ہوگا تاہم کسی بھی شخص کی 3 ماہ سے زائد مدت کے لیے حراست آئین کے آرٹیکل 10 کی شق سے مشروط ہوگی۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق ذیلی دفعہ (2) میں ایک نئی شق کا اضافہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر ذیلی دفعہ (1) کے تحت مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کی جانب سے کسی کو حراست میں لینے کا حکم جاری کیا جاتا ہے تو اسکے خلاف تحقیقات ایک جے آئی ٹی کرے گی جس میں انٹیلی جنس ایجنسیز، سول آرمڈ فورسز، آرمڈ فورسز، پولیس سپرٹنڈنٹ رینک کا افسر سمیت قانون نافذ کرنے والے افسران شامل ہوں گے۔
بل کے مطابق یہ دفعات اے ٹی اے (ترمیمی) ایکٹ 2024 کے نفاذ کے بعد دو سال تک نافذ العمل رہیں گی۔
تاہم حکومتی ذرائع کا دعوی ہے کہ یہ ترمیمی بل تحریک انصاف کے شرپسندوں کے خلاف کاروائی کے لیے نہیں لایا جا رہا بلکہ اس کا مقصد بلوچستان میں علیحدگی پسندوں پر قابو پانا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے وفاقی کابینہ کو آگاہ کیا تھا کہ بلوچستان کی صورتحال موجودہ قانونی فریم ورک سے باہر نکل چکی ہے، جس کی وجہ سے جاندار رد عمل ناگزیر ہے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ بلوچستان میں باغی گروپس اور دہشت گرد نیٹ ورکس کارروائیوں میں پہلے سے زیادہ مربوط ہوگئے ہیں، حالیہ واقعات کے نتیجے میں بڑی تعداد میں قیمتی جانوں کا نقصان اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوا ہے لہذا سخت قوانین نافذ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔