یوتھیے ججز کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا حکومتی منصوبہ کیا ہے؟
وفاقی حکومت نے عمراندار ججز کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جہاں ایک طرف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 25 کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ وہیں دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے اس حکومتی اقدام کو ’اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو دباؤ میں لانے اور من پسند افراد کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی سوچی سمجھی سازش‘ قرار دیتے ہوئے سے مسترد کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ اِس وقت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 19 ہے جس میں سے 17 مستقل جبکہ 2 ایڈہاک جج ہیں۔حکومت کا مؤقف ہے کہ عدالت عظمیٰ میں ججز کی تعداد بڑھانے کا بنیادی مقصد سپریم کورٹ میں ہزاروں کی تعداد میں زیرِ التوا مقدمات کو نمٹانا ہے۔ سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق اِس وقت عدالتِ عظمیٰ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہے۔
سپریم کورٹ میں عمراندازججز کی اکثریت ہے
مبصرین کے مطابق عمران خان کی محبت میں گرفتار عمراندار ججز کی اس وقت سپریم کورٹ میں اکثریت ہے جس کی وجہ سے مخصوص نشستوں سمیت متعدد مواقع پر حکومت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد حکومتی سطح پر اس صورتحال کے تدارک کیلئے فیصلہ کیا گیا کہ فوری طور پر سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد کو بڑھایا جائے تاکہ عمراندار ججز کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا سکے۔
اس حکومتی منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اتحادی حکومت کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے فوری بعد سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے کا بل پیش کر دیا گیا۔ قائمہ کمیٹی سے اس بل کی منطوری کے بعد اس بل کو 4 نومبر کو سینیٹ کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی نے ججز میں اضافے کے بل کی مخالفت شروع کردی
دوسری جانب سپریم کورٹ میں عمراندار ججز کے کارنر ہونے کے خدشے کے پیش نظر پی ٹی آئی نے ججز کی تعداد میں اضافے بارے منظور کردہ بل کی مخالفت شروع کر دی ہے اور اسے عدلیہ کی آزادی پر قدغن قرار دے دیا ہے
۔پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیئر وکیل رہنما حامد خان کے مطابق حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ ایک ’سوچی سمجھی سازش‘ کے تحت ہے۔انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس کا پس پردہ مقصد ناصرف عدالت عظمیٰ میں اپنے من پسند ججز کو شامل کروانا ہے بلکہ عدلیہ کو دباؤ میں بھی لانا ہے۔
انھوں نے کہا اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھانے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وکیل رہنما کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے بھی سپریم کورٹ ایکٹ میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ انڈیا آبادی اور رقبےکے لحاظ سے پاکستان سے بہت بڑا ملک ہے اور وہاں پر سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 34 ہیں۔ انھوں نے سوال کیا تو کیا پاکستان کی سپریم کورٹ میں 17 جج لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکتے؟
تاہم پاکستان میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا ہے کہ اُن کی تنظیم کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی ماضی میں متعدد بار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے ججوں کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے بلکہ اس معاملے کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ ججوں کی تعداد بڑھانے سے عام لوگوں کو ریلیف ملے گا۔