کیا ٹرمپ کے صدر بننے سے عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے ؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ بار بار حکومت مخالف تحریک چلانے میں ناکامی کے بعد عمران خان کی تحریک انصاف کے قائدین اب یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کا انتخاب جیت جائے گا۔ یوں نہ صرف ان کا کپتان باہر آ جائے گا بلکہ ان کی جماعت بھی اقتدار میں آ جائے گی۔
لیکن انہیں یاد رہنا چاہیے کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے اور امریکہ کے لیے اب پاکستان وہ اہمیت بھی کھو چکا جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ وسعت سوال کرتے ہیں کہ کیا عمران خان کے حامیوں نے یہ بھی سوچا ہے کہ اگر ٹرمپ الیکشن ہار گیا اور کمیلا ہیرس امریکی صدر بن گئی تو کیا ہوگا۔
بی بی سی اردو کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ جب سے یہ ملک پیدا ہوا تب سے ہمیں بس دو طرح کے انتخابات میں دلچسپی ہے۔ عوام کو یہ انتظار رہتا ہے کہ انھیں پھر کب بیلٹ بکس کی زیارت نصیب ہو گی۔ اس ڈبے میں جتنے ووٹ پڑیں گے انھیں گنے کا کون اور گنتی کے بعد بھی وزیرِ اعظم کون بنے گا اور اسے دراصل کون چنے گا اور کتنے برس کے لیے؟
دوسرا امریکہ کا صدارتی انتخاب ہے۔ مگر اس میں عام پاکستانیوں سے زیادہ حکمران اشرافیہ کی دلچسپی ہے۔ کیونکہ جتنا یقین دیسی اشرافیہ کو اپنے عوام کی سمجھ بوجھ پر ہے، اس سے دس گنا بھروسہ واشنگٹن کی جنبشِ ابرو پر ہے۔ اب تو خیر وہ بات نہیں رہی مگر چند برس پہلے تک امریکی صدارتی نتائج پر ہماری قومی توجہ کا یہ عالم تھا کہ ’آقا جو لڑکھڑایا تو نوکر پھسل گیا۔‘ ایک عام امریکی کو اپنے صدر کے بارے میں شاید اتنا معلوم نہ ہو جتنا ہم نسل در نسل بتاتے آ رہے ہیں۔ مثلاً یہی کہ لیاقت علی خان نے کس طرح روسی صدر سٹالن کا دعوت نامہ ٹھکرا کے امریکی صدر ٹرومین کا دعت نامہ قبول کر لیا تھا۔
وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ کئی برس سے روایت ہے کہ جب بھی کوئی صدر یا وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے تو سب سے پہلے سلام کرنے ریاض اور پھر بیجنگ جاتا ہے۔ لیکن امریکہ سے اگر دورے کی دعوت چھوڑ مبارک بادی کا فون تک نہ آئے تو ہمارے کرسی نشینوں کو برابر لگتا رہتا ہے کہ شاید زندگی میں سب کچھ ملنے کے باوجود ایک فوٹو کی کمی رہ گئی۔ وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں امریکی صدر کے بازو میں بیٹھ کر تصویر نہ کھنچی تو پاکستان مین کاہے کی بادشاہی؟ بھلے بارک اوباما کے سامنے ہر ایک منٹ بعد گلے کی خشکی کے سبب کھنکارتے ہوئے نواز شریف کی طرح ہاتھ میں ’کیا کیا بات کرنی ہے‘ کی پرچی ہی کیوں نہ پھنسی ہو۔
وہ کہتے ہیں ہم لوگ دور کیوں جائیں۔ ہمارے اگلے سے پچھلے وزیرِ اعظم عمران خان جب ڈونلڈ ٹرمپ سے مل کر اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تو مجمع دیکھ کے بقول خان صاحب ’یوں لگ رہا ہے جیسے میں ورلڈ کپ جیت کر آ رہا ہوں۔‘ جب بائیڈن نے انھیں کبھی کال نہیں کی تو بے چین خان صاحب کے منھ سے ایک روز نکل ہی گیا کہ ’مجھے بھی اس کی کال کا انتظار نہیں۔‘ یعنی شاعر دراصل کہہ رہا ہے کہ ’جا جا میں توسے ناہی بولوں۔‘ پھر بھی دبدبے کا یہ عالم ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی صفِ دوم کا اہلکار ڈونلڈ لو جسے گھر والے دوسری بار سالن مانگنے پر گھورتے ہوں گے اس کا ایک جملہ ہماری خدائی ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں امریکہ اوروں کے لیے سپر پاور ہو گا لیکن ہمارے لیے تو وہ ایک متواتر ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اگر امریکہ ہمارے تئیں بار بار بے وفائی نہ کرتا اور گو نا گوں خدمات کے عوض جتنی دہاڑی بنتی ہے اتنی ہی دے دیتا تو آج ہمارے چین سے بھی اتنے ہی اچھے تعلقات ہوتے جتنے ایران سے ہیں۔ آج تک اس اداسی میں پھنسے ہیں کہ امریکہ نے ہم سے لیا بہت کچھ اور بدلے میں دیا بہت کم۔ دوسری جانب امریکیوں کا خیال ہے کہ پاکستانیوں نے ہم سے بس لیا ہی لیا ہے۔
تحریک انصاف کا وکلاء تحریک چلانے کا منصوبہ وڑھ کیسے گیا ؟
وسعت اللہ خان کا کہنا ہے کہ ہم جس رشتے کو وفا اور بے وفائی کے ترازو پر تولنے سے باز نہیں آتے امریکہ اسے خدمت اور معاوضے کے میزان پر رکھتا ہے۔ جانے کس لال بھجکڑ نے ایک اور بات ہماری اشرافی نفسیات میں ڈال دی کہ جب ریپبلیکن صدر آتا ہے تو وہ ہمارا کسی ڈیموکریٹ صدر کی نسبت زیادہ خیال رکھتا ہے۔ اور یہ کہ ڈیموکریٹس کا روائیتی جھکاؤ انڈیاکی طرف ہے۔ ہم چونکہ مشرقی روایات کے مارے ہوئے ہیں لہذا ہر بار بھول جاتے ہیں کہ ملکوں کی یاری نہیں ہوتی بلکہ مفادات کی ہم آہنگی کو دوستی کی پوشاک پہنا دی جاتی ہے۔ جب مفاد پورا ہو جاتا ہے تو پوشاک بھی واپس لے لی جاتی ہے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے ایک بار پھر مسکرا کے پاکستان کی طرف دیکھا تو ہم ایک بار پھر مارے خوشی کے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ ہمیں ہمارا دو طرفہ ماضی راتوں رات معاف بھول گیا اور حال سنہری اور مستقبل روشن دکھنے لگا۔ لیکن جیسے ہی افغانستان سے آخری امریکی فوجی نکلا، وہ دن اور آج کا دن تو کون اور میں کون۔
مگر آج بھی ہمارے لطیف کھوسے خوشی سے جھومتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ بس دیکھنا جیسے ہی ٹرمپ آتا ہے خان بھی باہر آ جائے گا۔ یہ فارمی سیٹ اپ تو ٹرمپ کے ایک فون کی مار ہے۔ لیکن بھائیو کبھی تم نے یہ بھی سوچا ہے کہ اگر امریکی صدارتی الیکشن کے نتیجے میں کمیلا ہیرس آ گئی تو کیا ہو گا؟