فیض حمید کا کورٹ مارشل ٹرائل مارچ تک مکمل ہو جانے کا امکان
پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق چیف لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی پروسیڈنگز مارچ تک مکمل ہونے کا امکان ہے جس کے نتیجے میں الزامات ثابت ہونے پر انہیں عمر قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ فیض حمید کو آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی پر 12 اگست 2024 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
سینئر صحافی جاوید چوہدری نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ دعوی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عام طور پر ایسے ٹرائل میں 6 سے 7 ماہ لگتے ہیں۔ ملزم کے خلاف چارجز فریم ہو چکے ہیں اور اب جنرل فیض حمید اور گواہوں سے تفتیش جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق پاک فوج نے ایک کورٹ آف انکوائری تشکیک دی تھی تاکہ ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکینڈل کی تحقیقات کی جا سکیں۔
یاد رہے کہ فیض حمید کے خلاف یہ کارروائی آرمی ایکٹ کے تحت کی جا رہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ بطور ائی ایس ائی سربراہ اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مالی کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات کے علاوہ فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے شواہد ملے ہیں جن کی بنیاد پر ان کے خلاف کاروائی جاری ہے۔
جاوید چوہدری کے مطابق جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں آرمی سسٹم مغربی تفتیشی اداروں کی طرز کا نظام ہے۔ اس کے تحت سب سے پہلے ملزم کے خلاف الزامات کے شواہد جمع کیےجاتے ہیں، پھر گواہوں اور مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ ہوتی ہے اور ملزم کے سامنے شواہد رکھے جاتے ہیں۔ گرفتاری کے وقت جا فیض حمید نے تمام الزامات کو غلط قرار دیتے دیا تھا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اب ایک ایک کر کے فیض حمید کے خلاف ان پر عائد کردہ الزامات کے شواہد انہیں دکھائے جا رہے ہیں۔
جاوید چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فوج میں یہ تائثر پایا جاتا ہے کہ عمران خان وزارت عظمی سے فارغ ہونے کے بعد بھی فیض حمید پر اثر انداز ہوتے تھے جو ریٹائرمنٹ سے پہلے اور بعد میں بھی اپنے کپتان کا سیاسی ایجنڈا اگے بڑھانے کے لیے ان کی تحریک انصاف کے چیف منصوبہ ساز بنے ہوئے تھے۔ بتایا جا رہا ہے کہ فیض حمید نہ صرف فوج کے اندر عمران کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے لابنگ میں ملوث تھے بلکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہے تھے۔ جاوید چوہدری نے دعوٰی کیا کہ فیض حمید کو عمران خان کی وزارت عظمی کے دوران آرمی چیف بننے کا لالچ تھا۔ ان کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید اس لیے عمران کے ساتھ کھڑے رہے کہ وہ اقتدار میں آ کر انہیں دوبارہ آئی ایس آئی چیف بنا سکتے تھے۔
خیال رہے کہ ماضی میں بے نظیر بھٹو نے بھی ریٹائرڈ جنرل شمس الرحمٰن کلو کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا تھا۔
کیا ٹرمپ کے صدر بننے سے عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے ؟
عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے قبل کے واقعات کے بارے میں پوچھے جانے پر جاوید چوہدری نےکہا کہ یہ تحریک ناکام بنانے کے لیے سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کے ذریعے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو تاحیات توسیع کی پیش کش کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مارچ 2022 میں عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی کے دفتر سے فون کرکے یہ پیش کش کی تھی۔
جاوید چوہدری نے یہ بھی بتایا کہ عمران نے جب جنرل باجوہ کو یہ کال کی تب آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم احمد انجم بھی کمرےمیں موجود تھے۔
لیکن جاوید چوہدری نے مزید بتایاکہ اس اسٹوری کے اور بھی بہت سے ورژن ہیں۔ مسلم لیگ ن کےصدر نواز شریف نے شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور دیگر رہنماؤں کی خواہش اور کوشش کے باوجود جنرل قمر باجوہ کو توسیع دینے مخالفت کی تھی۔ نواز شریف نے آصف زرداری کے ساتھ مل کر آرمی چیف کے لیے جنرل عاصم منیر کا نام فائنلائز کر لیا تھا جس کے بعد وہ مزید دباؤ سے بچنے کےلیے مریم نواز کے ساتھ یورپ کی سیر کو چلے گئے تھے۔ نواز شریف یورپ اسی وقت واپس آئے جب نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حلف اٹھا لیا۔