بلوچستان کے مسئلے کا حل کیا سیاسی قیادت کے بس میں ہے؟

 

 

 

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ پاکستان کے طاقت ور فیصلہ سازوں کو چاہیے کہ بلوچ قوم پرست قیادت کو نظر بند کرنے کی بجائے ان سے گفتگو کریں اور ملک میں اصل جمہوری نظام کو بحال کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل جمہوریت کی بحالی کے لیے آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا انعقاد لازمی ہے جو مسئلہ بلوچستان کے حل کے لیے بھی ضروری ہے۔

 

روزنامہ جنگ کے لیے سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ یہ 2013 کی بات ہے، ملک میں عام انتخابات ہوچکے تھے اور مسلم لیگ (ن) حکومت کی تشکیل کے مرحلے میں تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب پہلی بار تحریکِ انصاف ایک نمایاں سیاسی جماعت بن کر اُبھر رہی تھی۔ ہمیں اطلاع ملی کہ مری میں نواز شریف نے پارٹی کا اہم اجلاس طلب کیا ہے جہاں پر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے نام کا فیصلہ ہونا ہے۔ میں نے نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل بزنجو کو فون کیا تو اُنہوں نے کہا کہ ’تم مری آ جاؤ، چنانچہ میں وہاں چلا گیا، ظاہر ہے اور بھی صحافی اپنی ٹیموں کے ساتھ موجود تھے۔ ہم سب گیسٹ ہاؤس کے باہر کھڑے تھے مگر اندر کا منظر نامہ دیکھ سکتے تھے۔ حاصل بزنجو نے مجھے دیکھا تو اندر بلا لیا۔ جنرل مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان کی صورتحال میں جو خرابی آئی اسکے بعد پہلی بار مسئلےکے سیاسی حل کیلئے کوئی بڑا فیصلہ ہونے جارہا تھا۔ اس کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ فیصلہ پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت یعنی نواز لیگ کرنے جارہی تھی۔

 

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اگر ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت کی مدت پورے پانچ سال ہوتی تو عین ممکن ہے آج معاملات خاصے بہتر ہوتے مگر نون لیگ کے ثناءاللہ زہری کی مری کے اجلاس میں نواز شریف سے ناراضی کی وجہ سے دونوں کو وزارتِ اعلیٰ کے ڈھائی ڈھائی سال ملے۔ اسکے باوجود زہری کے خلاف 2018 میں ایک عجب کھیل کھیلا گیا اور بلوچستان عوامی پارٹی نامی باپ پارٹی کو متعارف کرادیا گیا۔

 

واپس موضوع کی جانب جاتے ہوئے مظر عباس بتاتے ہیں کہ وہ حاصل بزنجو کی دعوت پر گیسٹ ہاؤس کے اندر گئے تو دیکھا کہ نواز شریف اور دیگر سیاسی قیادت کی ملاقات چل رہی تھی۔ اس دوران شہباز شریف نون لیگ بلوچستان کے صدر سردار ثناءاللہ زہری کو ساتھ لے کر برابر والے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے حاصل بزنجو سے پوچھا کیا کوئی کشیدگی چل رہی ہے، تو اُنہوں نے کہا’’ہاں، میاں نواز شریف دراصل ڈاکٹر مالک کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے ہیں لیکن ثنا اللہ زہری اڑا ہوا ہے۔

 

مظہر عباس بتاتے ہیں کہ کچھ دیر بعد شہبازشریف باہر آئے اور میاں صاحب سے کچھ بات کی۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ میاں صاحب ثناءاللہ زہری کی ضد پر خوش نہیں۔ خاصی دیر تک یہ کوششیں ہوتی رہیں کہ کسی طرح ثناء اللہ زہری مان جائیں۔ آخر میں طے ہوا کہ پہلے ڈھائی سال ڈاکٹر مالک اور دوسرے ڈھائی سال ثناء اللہ زہری بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ہونگے۔

 

وزیر اعلی بننے کے بعد ڈاکٹر عبدلمالک بلوچ کا اصل ٹاسک تھا ’ناراض بلوچوں‘ کو سیاسی دائرے میں لے کر آنا۔ انہوں نے اس سلسلے میں کچھ ملاقاتیں بھی کیں۔ مشرف چیزوں کو خاصا خراب کر گیا تھا۔ اُس سے برسوں پہلے 1970 کی دہائی میں اگر نیشنل عوامی پارٹی کی صوبہ بلوچستان میں حکومت برطرف نہ کی جاتی۔ نیپ پر پابندی لگا کر خان عبدالولی خان ، سردار عطاء اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، حبیب جالب جیسے لوگوں کو گرفتار نہ کیا جاتا اور سب سے بڑھ کر آرمی آپریشن نہ شروع کیا جاتا تو آج بلوچستان کی سیاسی فضابڑی مختلف ہوتی۔ بلوچستان کی حکومت ختم کی گئی تو کے پی میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا مفتی محمود نے بطورِ احتجاج کے پی کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے استعفیٰ دےدیا۔ ایسی مثالیں ہماری سیاست میں کم ملتی ہیں۔ بھٹو صاحب کے اس ایکشن  کے پیچھے شاہ ایران کا دباؤ تھا جو اُس وقت اِس خطے میں امریکہ کے نگہبان کا کردار ادا کررہے تھے۔ اور کمیونسٹ روس کی حمایت یافتہ نیپ کی حکومت برداشت نہیں تھی۔ بعد میں1977میں جنرل ضیاء کا کردار بھی سامنے آگیا جب بھٹو صاحب نے نیپ کے لیڈروں کی رہائی کا مطالبہ مان لیا۔

 

نیپ پرپابندی کے اثرات خاصے گہرے تھے۔ اس نے بلوچستان اور کے پی میں نہ صرف مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا بلکہ خود نیپ کو مختلف قوم پرست جماعتوں میں تقسیم کردیا یہ تقسیم آج تک برقرار ہے۔ نیپ اور آج کی عوامی نیشنل پارٹی کے بیانیے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی طرح دیگر قوم پرست جماعتیں اپنے اپنے خول میں بند ہوکر رہ گئی ہیں۔ جس نے راستہ ہموار کیا خاص طور پر ان دو صوبوں میں انتہا پسند سیاست کے فروغ میں۔ جنرل ضیاء نے ملک میں مارشل لا لگایا تو نیپ کے گرفتار رہنماؤں کو رہا کردیا۔ تاہم نیپ کالعدم ہی رہی۔ مارشل لا کی حمایت یا مخالفت پر جماعت میں تقسیم تھی۔ نظریاتی لوگ بھٹو کی غلط پالیسیوں کے باوجود مارشل لا لگانے کو جمہوریت کا قتل سمجھتے تھے۔ بہر کیف کچھ رہنماؤں کا بھٹو سے ذاتی عناد بھی موجود تھا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ نیپ نے اپنے ایک سال سے بھی کم مختصر دورِ اقتدار میں اسمبلی کے ذریعے صوبہ سے ’سرداری نظام‘ کے خاتمے کا اعلان کیا اور اِس قرارداد کو عمل درآمد کیلئےوفاقی حکومت کو بھیج دیا ، اور بھی کئی اقدامات تھے۔ بعد میں بھٹو نے اسی فیصلے کو اپنا فیصلہ بناکر سرداری نظام کو ختم کرنے کا اعلان کیا مگر شاید اس وقت تک دیر ہوچکی تھی اور زخم گہرے ہوگئے تھے۔

 

مظہر عباس کہتے ہیں کہ آخر بلوچستان کا سیاسی حل ہے کیا۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت ہمیشہ ہمیں کمزور کرنے کیلئے ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ماضی میں بھی اس نے کئی گروپس کی حمایت کی جن میں ایم کیو ایم (لندن) اور کچھ سندھی انتہا پسند گروپس شامل رہے ہیں۔ بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ ان میں کئی آج قومی سیاست کا حصہ ہیں کسی بھی پیچیدہ مسئلے کا حل ایک ’SHO‘کی نہیں بس ایک بڑے سیاسی فیصلے کی مار ہوتا ہے، بلوچستان کے مسئلے کا پہلا حل تو اصل جمہوریت کی بحالی ہے جو آج تک نہیں ہوئی کیونکہ بہر حال’جمہوریت ہائبرڈ‘ نہیں ہوتی ہے آئین اور قانون کے مطابق چلتی ہے۔ہم اکثر برطانیہ کی مثال دیتے ہیں مگر وہاں توڈپٹی پرائم منسٹر ٹیکس ظاہر نہ کرنے پر استعفیٰ دے دیتا ہے یا دےدیتی ہے۔ ہمارے یہاں آئین میں نائب وزیراعظم کی گنجائش ہی نہیں ہےاور ماشاءاللہ 2008 ءسے ا ب تک دو رہ چکےہیں ۔جمہوریت میں میڈیا آزاد اور کسی کو کسی خبر پر اعتراض ہوتو وہ ہتکِ عزت کے قانون کا سہارا لےسکتا ہے یہاں تو مکمل زباں بندی ہے بس اس پر اور کیا آگے بات کروں۔

 

مظہر عباس کہتے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل باقی پاکستان سے الگ نہیں مگر یہاں  مشرف دور کے بعد لاپتہ افراد کا مسئلہ زیادہ اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ ایک کمیشن بھی بنا جسکی فائل ہی لاپتہ ہوگئی، مظہر عباس تجویز دیتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو امن وامان خراب کرتا ہے اسے قانون کے مطابق سزا دیں۔ صوبے میں ایک شفاف اور مضبوط جمہوری حکومت کے قیام کیلئے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کریں۔ بلوچستان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے ہاتھوں میں ’کتابیں‘ دیں۔ انکا کہنا یے کہ بلوچ نوجوان سیاسی شعور کیساتھ سرداروں سے زیادہ مضبوط ہیں۔ پاکستانی فیصلہ سازوں کو چاہیے کہ ان سے بات کریں۔ انہیں ’نظر بند‘نہ کریں۔ صرف آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ہی پاکستان کو بلوچستان اور ملک کے دیگر مسائل کے حل کی طرف لے جا سکتے ہیں۔

 

Back to top button