کیا عمران بھی بھٹو کی طرح پھانسی گھاٹ پر لٹکنے کو تیار ہے؟

 

 

 

 

معروف لکھاری اور تجزیہ کار کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر نے کہا ہے کہ آج ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عمران خان بھی تمام تر ریاستی دباؤ اور پیشکشوں کے باوجود اپنے اصولی موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور ڈیل کرنے سے انکاری ہے۔ لیکن اصل سوال یہ یہ ہے کہ کیا عمران خان بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پھانسی کا پھندہ چومتے ہوئے پھانسی گھاٹ پر لٹکنے کے لیے تیار ہے؟

 

اپنے سیاسی تجزیے میں کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ حکومت جیسی بھی ہو‘ اسے پرلے درجے کے بیوقوف گماشتے مل ہی جاتے ہیں۔ ایسے فنکار قسم کے لوگ جو اپنی آسمانی ڈیوٹی سمجھتے ہیں کہ حکومتِ وقت کی مدح سرائی میں لگ جائیں اور جو اُس حکومت کے مخالف ہو اُس کے پیچھے لگ جائیں۔ یہ ایک قسم کا قدرتی امر ہے‘ شمع جلتی ہے شمع جیسی بھی ہو پروانے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ لیکن گزارش ہے حاشیہ برداری کا بھی کچھ معیار ہونا چاہیے۔ جہاں تعریف نہیں بھی بنتی ضرور کریں لیکن اس انداز سے کہ خود کو مذاق نہ بنائیں۔

 

ایاز امیر کہتے ہیں کہ ہمارے کئی دوست بے جا تعریفوں کے ایسے پل باندھنے لگتے ہیں کہ ایک تو اُن کی عقل پر رشک آنے لگتا ہے اور ساتھ ہی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ حکومتِ وقت کے مخالفوں کو لتاڑنے پر آئیں تو اس بے ہودگی پر اُتر آتے ہیں کہ ہم جیسے جنہوں نے بہت کچھ دیکھا ہے ہمیں بھی شرم آنے لگتی ہے۔ استدعا صرف اتنی ہے کہ مکھن لگانے میں ہی آپ کی تسکین ہے تو ضرور لگائیں لیکن ہاتھ کچھ تو ہولا رکھا جائے۔ ایاز امیر کہتے ہیں کہ گزرے وقتوں میں ایسی فضول حرکتوں کیلئے ایک دو آزمودہ راستے ہوتے تھے۔ سرکاری اخبار ہوتے تھے‘ یا تو اُن میں بھرتی ہو گئے اور حاکم وقت کے قصیدے لکھنے لگے یا کچھ زیادہ ہی خوش نصیب ہوئے اور سرکاری ٹی وی پر نوکری مل گئی تو سکرین پر آکر حکمرانی کے گُن گانے لگے۔ وہ دور چلا گیا اور اب دور ہے اُس بلا کا جس کا نام سوشل میڈیا ہے۔ یوٹیوب نے تو یہ سہولت پیدا کی ہے کہ علم و دانش ایک طرف رہا جو بے ہودگی پر آ سکے اور کچھ چرب زبان بھی ہو وہ باقاعدہ پروگرام کرتا ہے اور چونکہ نثر پڑھنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے اور لوگوں کی آسانی اسی میں ہے کہ انٹرنیٹ کی گشت کریں اور بٹن دبائیں تویو ٹیوب پروگراموں کا ایک پورا میلہ سج گیا ہے۔

 

ایاز امیر کہتے ہیں کہ فون کھولنے کی دیر ہے، جس قسم کی بے ہودگی آپ چاہیں گے آپ کو میسر ہو جاتی ہے۔ اس میں روزی روٹی کا بھی مسئلہ ہے۔ گزرے زمانوں میں مضمون لکھتے تو چند سو روپے معاوضہ ملتا تھا۔ لیکن یوٹیوب پر شہرت حاصل ہو جائے تو اچھے خاصے ٹَکے آنے لگتے ہیں۔ ان ٹَکوں کے مسلسل آنے کی تب ہی صورت بنتی ہے کہ آپ کے بنائے ہوئے پروگرام کو لوگ دیکھیں اور اُس میں دلچسپی لیں۔ لہذا آج کل ڈیجیٹل میڈیا پر ہونے والی مسلسل بکواس اور بے ہودگی نہ صرف بک رہی ہے بلکہ فروغ بھی پا رہی ہے۔ لہٰذا یوٹیوبرز کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بکواس کریں اور زیادہ سے زیادہ نوٹ کمائیں۔

 

ایاز امیر کے بقول آج کے پاکستان میں ایک طرف فارم 47 کا کرشماتی اقتدار چل رہا ہے اور دوسری طرف قیدی نمبر 804 اور اُسکی معتوب جماعت ہے جو تمام کوشش کے باوجود نہ تو ختم ہو رہی ہے اور نہ ہی سرکار کی طرف سے اُس پر مہربانیوں کا اختتام ہو رہا ہے۔ مدح سراہوں کا کام بھی واضح اور سادہ ہے‘ ہائیبرڈ سرکار اور اُس کے حواریوں کی تعریفوں کے پل باندھو اور قیدی نمبر 804 کو صبح شام برا بھلا کہتے رہو۔ اس دوران اگر آپکی بکواس چل جائے اور ٹَکے آنے لگیں تو سونے پر سہاگا۔ فیصلہ ساز بھی راضی اور روزی روٹی کا مسئلہ بھی حل ہو گیس۔ انسان کو اور کیا چاہیے۔ لیکن یوٹیوب کے مجاہدوں کی حرکتیں دیکھ کر کبھی کبھی دل کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ تھوڑا ہاتھ روک کر چلو‘ گرو ضرور لیکن اتنا بھی گھٹیا پن دکھانے کی ضرورت کیا ہے۔ تعریف تو چلیں حاکموں کی بنتی ہے لیکن اتنا تو یاد رکھو کہ جو ویسے ہی زیر عتاب ہوں اور قید میں ہوں اُن کو مارنا بہادری کے زمرے میں نہیں آتا۔

 

ایاز امیر کہتے ہیں کہ نواز شریف کیسے حاکم تھے، سب جانتے ہیں۔ لیکن پرویز مشرف کے ہاتھوں زیرعتاب آئے تو ہم اُنہیں سراہنے لگے حتی کہ مشرف دور میں جمہوریت کی ایک نشانی کے طور پر اُنہیں پیش کرتے رہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو حاکم تھے تو اُن سے بہت غلطیاں سرزد ہوئیں۔ لیکن جب ضیا الحق نے شب خون مارا اور بھٹو زندان کے پیچھے گئے تو اُن پر مصیبتوں کے پہاڑ ڈھائے گئےم ایسے میں بھٹو پر تنقید کرنے والے بھی اُن کے مدح سرا‘ حمایتی بن گئے۔ ہم سب کہیں نہ کہیں خود غرض ہو جاتے ہیں اور اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔ لیکن اپنے فائدے کی صحافت کرتے ہوئے بھی کچھ دید لحاظ رکھنا چاہیے۔ حیا اور بے حیائی میں کچھ فرق تو رکھنا چاہیے۔

 

کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ اپنی تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو شہید جیسا وژنری لیڈر میسر نہیں آیا جس نے اپنی جان بچانے کی خاطر آخری دم تک جھکنے سے انکار کیا اور اسے اسی وجہ سے آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عمران خان بھی تمام تر ریاستی دباؤ اور پیشکشوں کے باوجود اپنے اصولی موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور ڈیل کرنے سے انکاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران دو برس سے زندان کے پیچھے ہے لیکن کیا اس کی گردن جھک رہی ہے؟ کیا اس کے گھٹنوں میں کوئی خم آ رہا ہے؟ کیا اس نے رحم کے لیے ہاتھ جوڑے ہیں‘ کیا اس نے کوئی آہ وپکار کی ہے ؟ حالیہ وقتوں میں دیگر لیڈرز کی بہادری کے مناظر بھی ہم نے دیکھے ہیں۔ میاں صاحب جیل میں تھے تو بیماری اور علاج کا شور اُٹھتا تھا۔ موصعف کے پسندیدہ ڈاکٹر ایسی ایسی رپورٹیں تیار کرتے کہ لگتا تھا ابھی کوئی سانحہ ہونے والا ہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے دوسری دفعہ ڈیل ماری اور باہر نکل گئے۔ کیا ایسی کوئی تہمت آج کے قیدی پر لگائی جا سکتی ہے؟

Back to top button