نیٹ فلکس سیریز میں ISI انڈین جہاز کی ہائی جیکنگ کے الزام سے بری

دسمبر 1999 میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے بھارتی جہاز کے اغوا بارے نیٹ فلکس پر پیش کی جانے والی سیریز میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو ہائی جیکنگ کے الزام سے بری کر دیا گیا ہے اور اس واقعے کا ذمہ دار اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ کو قرار دے دیا گیا ہے، یاد رہے کہ ماضی میں بھارتی حکومت آئی ایس آئی کو اس اغوا کا ذمہ دار قرار دیتی رہی ہے، آئی ایس آئی پر ہائی جیکنگ کا الزام لگانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسافروں کی رہائی کے عوض بھارت کو تین پاکستانی عسکریت پسندوں، مولانا مسعود اظہر، شیخ احمد عمر سعید اور مشتاق احمد زرگر کو رہا کرنا پڑا تھا۔ رہائی کے بعد مولانا مسعود اظہر نے پاکستان پہنچ کر جہادی تنظیم جیش محمد کی بنیاد رکھی تھی، شیخ عمر سعید نے امریکی صحافی ڈینیل پرل کو اغوا کرنے کے بعد قتل کیا جبکہ مشتاق احمد زرگر دوبارہ کشمیر جہاد میں شامل ہو گئے۔

حال ہی میں نیٹ فلیکس پر ریلیز کی جانے والی سیریز ’IC 814‘ دراصل بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ کی ڈرامائی تشکیل ہے۔انڈین ایئر لائن کا یہ جہاز 24 دسمبر 1999 کو کٹھمنڈو سے نئی دہلی جاتے ہوئے پانچ ہائی جیکروں نے اغوا کر لیا تھا۔ یہ جہاز پہلے امرتسر لینڈ کرتا ہے پھر لاہور، دبئی میں اور آخر میں قندھار میں جو اس وقت طالبان کے کنٹرول میں تھا۔ 31 دسمبر کو نیا سقل شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے اس ہائی جیکنگ کا اختتام اس وقت ہوتا ہے جب انڈین حکومت ہائی جیکروں کے کچھ مطالبات پورے کرتے ہوئے تین افراد کو رہا کر دیتی ہے جن میں مولانا مسعود اظہر، مشتاق زرگر اور سعید عمر شیخ شامل تھے۔ اس ہائی جیکنگ کو انڈین اور دنیا کی سول ایوی ایشن تاریخ میں سب سے طویل ترین ہائی جیکنگ قرار دیا جاتا ہے۔ نیٹ فلیکس پر چھ اقساط پر مشتمل اس سیریز کو پاکستان اور انڈیا دونوں جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس میں حقائق کو درست انداز میں پیش نہیں کیا گیا۔

دراصل یہ سیریز جہاز کے کپتان دیو شرن کی اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب Flight into Fear’ سے اخذ کی گئی ہے جو 2000 میں شائع ہوئی تھی ۔ اس لیے یہ سیریز انڈیا اور پاکستان دونوں کے بیانیے سے میل نہیں کھاتی۔ بہرحال سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ فلم کے آخر میں ہائی جیکنگ کو اسامہ کی تنظیم القاعدہ کی کارروائی قرار دے دیا جاتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد تینوں قیدی یعنی مسعود اظہر، شیخ عمر اور مشتاق زرگر قندھار میں اسامہ بن لادن سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں جہاں پر اس رات جشن کا سما ہوتا ہے۔ فلم میں بتایا گیا ہے کہ اس جشن میں آئی ایس آئی کو شامل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھارت ہمیشہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ یہ ہائی جیکنگ آئی ایس آئی نے کرائی تھی۔

اس سیریز میں شامل بہت سے حقائق خود اس وقت اسلام آباد میں تعینات انڈین ہائی کمشنر گوپال سوامی پارتھا سارتھی کی جانب سے شائع ہونے والی یادداشتوں سے متصادم ہیں۔
یہ یادداشتیں سنگی اشاعت گھر ہری پور نے جنوری 2024 میں ’سفارتی تفریق‘ نامی کتاب میں شائع کی ہیں جس میں پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ڈاکٹر ہمایوں خان کی یادداشتیں بھی شامل ہیں۔ پارتھا سارتھی لکھتے ہیں کہ ’1984 میں جب انڈین ایئر لائن کا جہاز اغوا کر کے لاہور لایا گیا تھا تو میں کراچی میں تعینات تھا اس لیے مجھے طیاروں کے اغوا سے پاکستانی افسروں کے نمٹنے کا طریقہ معلوم تھا۔ انکے مطابق ’یہ ہائی جیکنگ دبئی میں ختم ہوئی تھی جس میں لاہور میں آئی ایس آئی نے ہائی جیکروں کو پستول فراہم کیا تھا۔ اس لیے مجھے اب بھی یقین تھا کہ پرواز کی منزل لاہور ہی ہو گی میرا پاکستان کے فارن آفس سے رابطہ تھا۔ انکے مطابق ‘جب امرتسر میں ہمارے اہلکار ہائی جیکرز۔ل پر قابو نہ پا سکے تو طیارے کو لاہور لے جایا گیا۔ جسونت سنگھ نے ستار سے بات کر کے مجھے لاہور بھجوانے کی درخواست کی تھی۔ مجھے توقع تھی کہ پاکستانی حکام پرواز کو زیادہ دیر لاہور میں نہیں رکنے دیں گے اور اس کی اگلی منزل دبئی ہو گی۔ مجھے لاہور لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر دیا گیا جب ہم راولپنڈی ایئر بیس پر ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے لگے تو بتایا گیا کہ جہاز اڑ گیا ہے اوراس کا رخ دبئی کی طرف ہے۔‘

پارتھا سارتھی نے لکھا کہ اگلے روز طالبان کے اسلام آباد میں تعینات ایک سفارت کار نے ہمارے سیاسی قونصلر روچی گھنشیام کو فون کر کے اطلاع دی کہ اغوا شدہ پرواز کا رخ قندھار کی جانب ہے اور بتایا جائے طالبان حکام اس سلسلے میں کیا کارروائی کریں۔ ’ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ طیارے کو اترنے کی اجازت دی جائے جس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اس سلسلے میں کیا کارروائی کی جائے۔‘ پارتھا سارتھی لکھتے ہیں کہ یہ بات دلچسپ ہے کہ طالبان کو طیارے کی حتمی منزل کے بارے میں ہم سے پہلے ہی معلوم تھا۔ طالبان کے سفیر نے شروع ہی میں مجھ پر واضح کر دیا تھا کہ اگر ہائی جیکرز کے ساتھ مذاکرات جلدی اختتام کو نہ پہنچے تو وہ طیارے کو کسی دوسری جگہ جانے کی اجازت دے دیں گے۔ انکے مطابق ’طالبان نے ہمیں بتایا کہ ایک اغوا کار طیارے سے باہر نکل آیا ہے اور اس نے اپنی شناخت ابراہیم بتائی ہے جو خود کو مولانا مسعود اظہر کا بھائی بتاتا ہے۔ ادھر میں طالبان کے ساتھ رابطے میں تھا، ادھر نئی دہلی کے حکام براہ راست اغوا کاروں سے مذاکرات کر رہے تھے جس سے مجھے اختلاف تھا کہ اس سے میری حیثیت ثانوی ہو گئی تھی۔‘

پارتھا سارتھی نے اس پاکستانی صحافی کا نام تو نہیں لکھا لیکن اتنا اشارہ دیا ہے کہ اسے ملا عمر اور طالبان رہنماؤں تک براہ ِراست رسائی حاصل تھی۔ اس صحافی نے مجھ سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد ہمارے پاس طالبان سمیت دو ذرائع ہو گئے تھے۔ یہ صحافی ہمیں ملا عمر کے مرکز قندھار سے براہ راست پیغامات پہنچا رہے تھے۔ جس کے بعد ہم پر واضح ہو گیا تھا کہ ایک جانب حرکت المجاہدین کے ساتھ قریبی روابط اور دوسری جانب آئی ایس آئی اور طالبان کے ساتھ روابط کے پیش نظر مذاکرات خاصے دشوار رہیں گے۔ انکا کہنا یے کہ میں نے طالبان سے ضمانت مانگی تھی کہ اگر اغوا کار کسی مسافر کو نقصان پہنچائیں تو طالبان طیارے پر دھاوا بول دیں۔ جب طالبان نے کہا کہ وہ افغانستان سے طیارے کو جانے کی اجازت دے دیں گے تو میں نے واضح کیا تھا کہ وہ بہتر جانتے ہیں کہ اغوا کاروں کے پاس جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پاکستان اپنے کسی بھی ہوائی اڈے پر اترنے کی اجازت دینے سے پریشان ہو گا جبکہ ایران اور خلیجی ریاستوں کے ہمارے ساتھ پہلے ہی بہت اچھے تعلقات ہیں۔ قندھار میں ہمارے کمرشل قونصلر گھنشیام نے مجھے بتایا تھا کہ قندھار میں طالبان حکام کو اردو بولنے والے پاکستانی کنٹرول کر رہے تھے۔‘

پارتھا سارتھی نے لکھا کہ دہلی حکومت پر سب سے بڑا دباؤ میڈیا کا تھا۔ دوسری طرف مسافروں کے رشتہ دار واویلا کر رہے تھے کہ مسافروں میں اگر کسی با اثر وزیر کے رشتہ دار ہوتے تو اب تک مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ میرا موقف تھا کہ ہمیں ہائی جیکروں کے مطالبات تسلیم نہیں کرنے چاہییں۔ چنانچہ اسی وجہ سے 28 دسمبر کو مجھے مذاکراتی عمل سے الگ کر دیا گیا اور 31 دسمبر کو نئی دہلی نے تین عسکریت پسندوں مشتاق زرگر، مولانا مسعود اظہر اور سعید عمر شیخ کو نہ صرف رہا کر دیا بلکہ انہیں اسی طیارے میں قندھار بھیجا جس میں ہمارے وزیر خارجہ جسونت سنگھ سفر کر رہے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ مسعود اظہر نے سارے راستے جسونت سنگھ پر گالیوں کی بوچھاڑ کیے رکھی۔ کیا یہ ضروری تھا کہ انڈین وزیر خارجہ اور منجھے ہوئے عسکریت پسندوں کو ایک ہی جہاز میں قندھار بھیجا جائے؟ مجھے ایک اسرائیلی دوست نے بتایا تھا کہ قندھار میں بری طرح جھک جانے کی بڑی وجہ ہمیں دی جانے والی معلومات تھیں کہ اگر ہم نے مطالبات نہ مانے تو اغوا کار طیارے کو دھماکے سے اڑا دیں گے۔‘

پارتھا سارتھی لکھتے ہیں کہ رہا کیے جانے والے عمر سعید شیخ کو دہلی کے نزدیک امریکی سیاحوں کو اغوا کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ مسعود اظہر ہندوستان کو پارہ پارہ کرنے کا عزم صمیم رکھتا تھا اور اسی مقصد کے لیے جموں کشمیر پہنچا تھا جبکہ مشتاق زرگر کو وادی کشمیر میں بھیانک قتل کرنے والا جنونی سمجھا جاتا تھا۔ رہائی کے بعد مولانا مسعود اظہر نے انڈین پارلیمنٹ پر 13 دسمبر 2001 کو حملہ کیا۔ جبکہ عمر سعید شیخ آج پاکستانی جیل میں امریکی صحافی ڈینیل پرل قتل کیس میں سزائے موت پر عمل کیے جانے کا منتظر ہے۔

Back to top button