عدم اعتمادکی کامیابی کے لئے PTI کا ٹوٹنا کیوں لازمی ہے؟

فیصل آباد ڈویژن کے 8 حکومتی اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے ممکنہ طور پر ایک فارورڈ بلاک بنانے کی خبروں کے بعد کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر بغاوت ہی دراصل کپتان کی چھٹی کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگی جس کے بعد مزید حکومتی اراکین اور اتحادی جماعتیں کپتان سے جان چھڑوانے کے مشن میں کھل کر اپوزیشن کا ساتھ دیں گی۔
دوسری جانب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ پیپلز پارٹی نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تجویز پر اتفاق کیا ہے۔ پی پی پی رہنماؤں کا موقف ہے کہ سپیکر کے خلاف تحریک کے نتائج سے صورتحال بھی واضح ہو جائے گی۔
پہلے یہ تاثر تھا کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کی معیاد مکمل کروانا چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن فوری الیکشن چاہتی ہے۔ تاہم، بلاول کے حالیہ بیان کے بعد کہ وہ جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں اور عمران کو اسمبلی توڑ دینی چاہیے، ایسا لگتا ہے کہ برف پگھلنے رہی یے اور نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایک ہی صفحے پر آگئی ہیں۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک تحریک انصاف کے اندر سے ایک عمران مخالف دھڑا کھل کر سامنے نہیں آتا، اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی مشکل ہوگی۔
دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد اب یہ اطلاعات ہیں کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے 8 ممبران قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی سے علیحدہ ہو کر ایک فارورڈ بلاک بنانے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ فیصل آباد ڈویژن اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والے آٹھ پی ٹی آئی اراکین کو مسلم لیگ ن کی جانب سے اگلے الیکشن میں پارٹی ٹکٹس دینے کی یقین دہانی کروا دی گئی ہے۔
تحریک عدم اعتماد اپوزیشن لا رہی ہے یا کہ اسٹیبلشمنٹ؟
اس گروپ کی قیادت راجہ ریاض کر رہے ہیں جنہیں جہانگیر ترین کا قریب ترین ساتھی خیال کیا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ جب پچھلے برس شوگر سکینڈل میں جہانگیر ترین کو گرفتار کرنے کی کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا انہوں نے اپنا علیحدہ تشکیل دے دیا تھا جس میں نمایاں ترین شخص راجہ ریاض ہی تھے۔
دیگر اراکین اسمبلی میں نصر اللہ گھمن، عاصم نذیر، نواب شیر وسیر، ریاض فتیانہ، خرم شہزاد، غلام بی بی بھروانہ اور غلام محمد لالی شامل ہیں جنھیں تحریک انصاف چھوڑنے کے بدلے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ملے گا۔ واضح رہے کہ یہ آٹھوں افراد فیصل آباد ڈویژن سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان میں سے کچھ کا تعلق چنیوٹ، جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی ہے اور یہ تینوں اضلاع بھی فیصل آباد ڈویژن کا حصہ ہیں۔بتایا جا رہا ہے کہ ان آٹھوں اراکین قومی اسمبلی نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ جہانگیرترین کے ایما پر کیا ہے جو چند روز پہلے علاج کی خاطر لندن روانہ ہوگئے تھے۔
سیاسی حلقوں میں افواہیں زیر گردش ہیں کہ شاید ترین کے لندن جانے کا مقصد پارٹی میں باغی دھڑا سامنے آنے کے بعد حکومت کی جانب سے شوگر سکینڈل میں انتقامی کاروائی سے بچنا ہو۔ تحریک انصاف کے ممکنہ فاروڈ بلاک کو فیصل آباد ڈویژن میں ن لیگ کے نئے جنم سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن فیصل آباد ڈویژن سے بری طرح شکست کھا گئی تھی۔
رانا ثنااللہ کے علاوہ اس کے تمام امیدوار پٹ گئے تھے۔ جھنگ اور ملحقہ علاقوں سے ٹکٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ پر تمام امیدواروں نے یکایک شیر کا نشان چھوڑ دیا تھا جس کے بعد کوئی امیدوار یہاں سے کھڑا ہی نہ کیا جا سکا تھا۔ تحریکِ انصاف کے آٹھ ارکان کا ذکر کیا جائے تو ان میں مختلف لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر پارٹی تبدیلی کا سوچ رہے ہیں۔ سرفہرست تو راجہ ریاض ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ راجہ ریاض کا تعلق ماضی میں پیپلز پارٹی سے تھا۔
2008 میں یہ فیصل آباد سے منتخب ہو کر صوبائی اسمبلی میں پہنچے اور مسلم لیگ ن کے ساتھ کچھ عرصے تک کابینہ میں سینیئر وزیر کے عہدے پر بھی رہے۔ 2018 کےنعام انتخابات میں راجہ ریاض نے ن لیگ کے رانا افضل کو محض 6 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی اور اب جبکہ رانا افضل کی وفات ہو چکی ہے تو ن لیگ کے پاس واقعتاً اس حلقے میں ایک خلا ہے کیونکہ رانا کے صاحبزادے تاحال الیکشن نہیں لڑے۔
اسی طرح ایم این اے غلام بی بی بھروانہ گذشتہ دو دہائیوں سے مسلسل اپنی سیٹ جیتتی چلی آ رہی ہیں۔ یہ ق لیگ کے ٹکٹ پر بھی جیت چکی ہیں، پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر بھی، اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر بھی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر بھی۔
انہیں کسی جماعت میں جانے کی ضرورت کم ہی رہتی اور سیاسی جماعتیں خود ان کے پاس چل کر آتی ہیں۔ تاہم، اب صورتحال قدرے مختلف ہو چکی ہے کیونکہ 2018 میں ہوئی حلقہ بندیوں کے بعد ان کا آدھا حلقہ شہری علاقوں پر مبنی ہے اور یہاں سے ووٹ حاصل کیے بغیر محض اپنے دیہی علاقوں کا ووٹ ان کے لئے شاید ناکافی ثابت ہو۔ لہٰذا انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے جو کہ روایتی طور پر پنجاب کے شہروں میں مقبول رہی ہے۔ نواب شیر وسیر کا معاملہ بھی تھوڑا عجیب ہے۔
2018 کے انتخابات میں انہوں نے ن لیگ کے طلال چودھری کو 12 ہزار ووٹوں کے واضح مارجن سے شکست دی تھی۔ طلال چودھری مریم نواز کی ٹیم کا حصہ ہیں لہذا ان کے حلقے میں نواب وسان کو کہاں ایڈجسٹ کیا جائے گا، اس حوالے سے کچھ واضح نہیں ہے۔