جاوید اقبال نے شہرت کیلئے قتل کئے یا حملے کا بدلہ لیا؟

تقریباً دو عشرے قبل لاہور میں سو بچوں کو قتل کرنے والے جاوید اقبال کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ گھر سے بھاگے ہوئے ایک لڑکے نے جاوید اقبال کو قتل کرنے کی کوشش کی جس میں وہ شدید زخمی ہو گیا تھا اور اس کی ماں صدمے سے چل بسی۔ چنانچہ اس واقعے کے بعد جاوید اقبال نے تہیہ کر لیا تھا کہ جن بچوں کی وجہ سے اس کی ماں مری ہے وہ ان بچوں کی ماؤں کو رلائے گا۔ دوسری جانب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے مشہور ہونے کے لئے سو بچوں کو قتل کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا ورنہ وہ پولیس کو گرفتاری کیوں دیتا؟

بی بی سی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کے والد محمد علی ہندوستان سے ہجرت کرکے لاہور آبسے تھے۔ جاوید اقبال محمد علی کے نو بچوں میں سے ایک مگر کچھ مختلف تھا۔ جاوید اقبال کے بڑے بھائی ضیا الحق نے بتایا کہ جاوید بچپن سے ہی ضدی، جھگڑالو اور جنونی بچہ تھا۔ ہر جائز، ناجائز بات منواتا تھا۔ والد اگر کسی بات سے انکار کر دیتے تو دھمکیاں دیتا تھا۔ جیسے جیسے جاوید اقبال کی عمر بڑھتی گئی، والد محمد علی کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ضیا الحق کے مطابق اُن کے خاندان کے ایک بزرگ نے جاوید کو دیکھ کر کہا تھا کہ جاوید اقبال نام پیدا کرے گا، چاہے نیک نامی میں کرے یا بدنامی میں۔ انھوں نے کہا کہ جاوید کو بچپن سے یہ شوق تھا کہ اُس کا دنیا میں نام ہو۔

جاوید اقبال کے والد نے اسے شاد باغ میں لوہے کے پائپ بنانے کا ایک چھوٹا کارخانہ لگا کر دیا تھا۔ اسی علاقے سے جاوید اقبال کی شخصیت کا ایک تاریک باب بھی شروع ہوتا ہے۔ اپنے کارخانے میں کام کے لیے جاوید اقبال نو عمر بچوں کا انتخاب کرتا تھا۔ جاوید کے بھائی ضیا الحق کہتے ہیں کہ اسے کام کے لیے لیبر کی ضرورت ہوتی تھی لیکن وہ اُن فیکٹری ورکرز بچوں کا بہت خیال کرتا تھا۔

اُن کے پرانے کپڑے اُتروا کر نئے کپڑے اور جوتے دیتا تھا۔ وہ ان بچوں پر ہزاروں روپے خرچ کرتا تھا۔ انھیں سیر کے لیے مری بھی لے جاتا تھا۔ مگر جاوید کی بچوں پر یہ توجہ صرف کاروباری حکمت عملی نہیں تھی۔ نسیم مرشد کے مطابق شاد باغ میں ہی پہلی مرتبہ اس پر بچوں کے ساتھ بد فعلی کرنے کا الزام لگا تھا۔ معاملہ اس قدر سنگین ہو گیا کہ اس واقعے میں جاوید کے خلاف 1990 میں شاد باغ تھانے میں مقدمہ بھی درج ہوا لیکن گرفتاری سے قبل وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا جس پر پولیس نے جاوید کے والد اور بھائی کو گرفتار کر لیا۔ علاقے کے معززین اکھٹے ہوئے اور جاوید اقبال کو شاد باغ سے نکال دیا گیا۔ جاوید اقبال سے ایک بیان حلفی پر دستخط بھی لیے گئے کہ وہ دوبارہ اس علاقے میں قدم نہیں رکھے گا۔ واضح رہے کہ جاوید اقبال پر بچوں سے زیادتی کا پہلا باقاعدہ مقدمہ 1990 میں تھانہ شاد باغ اور دوسرا مقدمہ 1998 میں، یعنی بچوں کے قتل کے واقعے سے ایک سال قبل، لاہور کے تھانہ لوئر مال میں درج ہوا تھا۔ دوسرے مقدمے میں جاوید اقبال کچھ عرصہ جیل میں ضرور رہا لیکن بعد میں رہا ہو گیا۔ ایسا کیا تھا کہ جنسی زیادتی کے الزامات اور مقدمات کے باوجود جاوید اقبال پولیس کی گرفت سے نہ صرف بچا رہا بلکہ کچھ عرصے بعد اس سے بھی سنگین جرم کرنے میں کامیاب ہو گیا؟

حیران کن بات یہ ہے کہ جاوید اقبال کی اس تمام عرصے میں پولیس اہلکاروں سے گاڑھی چھنتی رہی۔ جاوید اقبال نے دو شادیاں جو ناکام رہیں۔ جاوید کے بھائی ضیا الحق نے بتایا کہ پہلی بیوی سے جاوید کی ایک بیٹی تھی لیکن یہ شادی زیادہ عرصے نہیں چلی، پھر ہم نے اس کی دوسری شادی کی جس سے اس کا ایک بیٹا تھا۔ بچوں کے ریپ کے معاملے سے قطع نظر جاوید اقبال نہ صرف پیسہ کمانے، دکھانے اور خرچ کرنے کا شوق تھا بلکہ وہ شہرت کا بھی بھوکا تھا۔ اسکے دوست نسیم مرشد کے بقول جاوید کا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا تھا۔ اس نے اپنے کمرے میں گورنر پنجاب غلام جیلانی کی تصویر لگائی ہوئی تھی اور کہا کرتا تھا کہ دیکھو گورنر جیلانی جاوید اقبال کے ساتھ۔ جاوید اقبال کے چند اور شوق بھی تھے۔ اسلحہ رکھنا، فوٹو گرافی، سانپ پالنا، فلمیں دیکھنا اور بااثر لوگوں سے دوستی کرنا۔ یہ سب مہنگے شوق تھے اور وہ اسے لوگوں کی نظر میں بھی لاتا تھا۔

1998 میں جاوید اقبال لاہور کے علاقے غازی آباد میں رہائش پذیر تھا جب اس کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو اسے موت کے دہانے پر لے آیا۔ بعد میں اسی واقعے کو بنیاد بنا کر جاوید اقبال نے سو بچوں کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ جاوید نے اہنی ڈائری میں دعویٰ کیا کہ اس رات اس کے دو نئے ملازمین نے ارباب نامی ملازم سے جنسی زیادتی کی کوشش کی اور شور مچانے پر اسے قتل کر دیا جب کہ خود اس کو بھی سوتے میں مار کر گھر سے پیسے چرا کر فرار ہو گئے۔ جاوید اقبال کے بھائی ضیا الحق کے مطابق اس واقعے میں جاوید کے سر کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ زندہ بچنے کے کم چانس ہیں۔ شاید پانچ یا دس فیصد بچنے کا امکان تھا کیوںکہ چوٹوں سے اس کا سر پھول کر اتنا بڑا ہو گیا تھا جیسے بڑا گھڑا ہوتا ہے۔ جاوید کے بھائی کے مطابق اس واقعے کے بعد جاوید کا اتنا بُرا حال تھا کہ وہ کسی کو پہچانتا نہیں تھا۔ ہم نے ڈاکٹر کو کہا کہ کسی طرح اس کو بچا لیں، بس وہی گناہ ہوا ہم سے۔ اس واقعے کے بعد کئی ماہ تک جاوید کا علاج ہوا جس کے دوران اس کی والدہ نے ہی اس کا خیال رکھا۔ جاوید زندہ تو بچ گیا لیکن اس کی زندگی بدل چکی تھی۔ اس کی جسمانی اور معاشی حالت دونوں ہی ابتر ہو چکے تھے۔

جاوید اقبال کیس کی تفتیش کرنے والے سابق ڈی ایس پی مسعود عزیز خان کے مطابق جاوید اقبال نے تفتیش کے دوران انھیں بتایا تھا کہ خود پر قاتلانہ حملے کے واقعے کے بعد اس نے سوچ لیا تھا کہ اس نے بدلہ لینا ہے۔ وہ کہتا تھا کہ میں نے ایسے آوارہ، گھروں سے بھاگے ہوئے سو بچوں کا قتل کرنا ہے۔ جاوید اس واقعے کے بعد 16 بی راوی روڈ کے اُس مکان میں منتقل ہوا جہاں نو ماہ بعد اس نے سو بچوں کے قتل کا دعویٰ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب جاوید اقبال کے معاشی حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ دگرگوں ہوتے جا رہے تھے۔ اب نہ تو کوئی کارخانہ تھا، نہ کوئی ویڈیو گیم کی دکانیں، جہاں سے روانہ کی بنیاد پر کمائی ہوتی۔ جاوید اقبال نے اپنے بھائیوں سے مدد اور پیسوں کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب جاوید اقبال نے سو بچوں کے قتل کے ارادے کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا اور 16 بی راوی روڈ منتقلی اس منصوبے کا پہلا قدم تھا۔ جاوید کی ڈائری کے مطابق بچوں کے قتل کے سلسلے کا آغاز 20 جون 1999 کو ہوا اور 26 جولائی کو اس کی والدہ کے انتقال کے بعد اس میں تیزی آتی گئی۔ اسی ڈائری کے مطابق آخری قتل 13 نومبر کو کیا گیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کیس کے منظر عام پر آنے سے کچھ ہی عرصہ پہلے کی جب جاوید اقبال کے پہلے اعترافی بیان کے مطابق وہ سو بچوں کا قتل کر چکا تھا۔ جاوید قبال نے پولیس کے اعلیٰ حکام کے نام خطوط لکھے جس میں اس نے 100 بچوں کو قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے تمام تفصیلات بھی مہیا کیں کہ اس نے وہ قتل کیسے، کب اور کہاں کیے تھے اور اس واردات کو انجام دینے کا اس کا مقصد کیا تھا۔ایسا ہی ایک خط اس وقت کے ڈی آئی جی لاہور کے پاس پہنچا جنھوں نے ڈی ایس پی سی آئی اے طارق کمبوہ کو اس خط کی حقیقت کا سراغ لگانے کا ٹاسک سونپا۔ نے جاوید اقبال کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یہ ایک پاگل شخص ہے، یہ بھلا کیسے 100 بچوں کا قتل کر سکتا ہے؟ لیکن پھر چند ہی دن بعد جاوید اقبال کے گھر سے تیزاب سے بھرے چند ڈرم برآمد ہوئے جن سے انسانی باقیات ملیں۔

اس کیس کے تفتیشی افسر ریٹائرڈ ڈی ایس پی مسعود عزیز کا ماننا ہے کہ جاوید اقبال کے اس جرم کے پیچھے ایک وجہ اس کی شہرت کی بھوک بھی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب جاوید نے دیکھا کہ پولیس کو لکھے گئے خط کے باوجود کچھ نہیں ہوا تو اس نے ایک ہفتے بعد وہی خط جنگ اخبار کو بھیج دیا۔ یہ خط دو دسمبر 1998 کو جنگ اخبار لاہور کے کرائم ایڈیٹر جمیل چشتی کے سامنے موجود تھا جو خط پڑھے جا رہے تھے اور سوچے جا رہے تھے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ جمیل چشتی نے جب خود جائے وقوعہ کا جائزہ لیا تو وہاں ڈرم میں موجود انسانی باقیات سے لوہے کا ایک کڑا بھی برآمد کیا جب کہ 77 بچوں کے جوتوں کے جوڑے اور 100 بچوں کے کپڑے بھی الگ الگ تھیلوں میں پیک کیے ہوئے ملے۔ جاوید اقبال کے ہاتھ سے لکھے ہوئے متعدد پمفلٹس بھی ملے جن پر درج تھا کہ اس نے 100 بچوں کو قتل کر کے تیزاب میں ڈال دیا ہے۔

سانحہ مری کی ذمہ داری بھائی لوگوں پر بھی آتی ہے

3 دسمبر 1998 کو اخبارات میں یہ خبر مزید تفصیلات کے ساتھ شائع ہوئی تو ملک بھر میں آگ لگ گئی مگر جاوید اقبال کا کہیں نام و نشان نہیں مل رہا تھا۔ پولیس نے ان تمام افراد کو گرفتار کر لیا جن کا اس سے کسی بھی قسم کا کوئی بھی تعلق تھا۔ جاوید اقبال کے بھائی، پراپرٹی ڈیلر منیر حسین شاہ، پرانے دوست نسیم مرشد، اسحاق بلا۔۔۔ کیوںکہ جاوید اقبال ان تمام افراد کے نام بطور شریک مجرم اپنی ڈائری میں درج کر گیا تھا۔ پولیس نے کسی کو نہیں چھوڑا، بس ہاتھ نہ آیا تو جاوید اقبال۔

پھر اچانک 30 دسمبر کو رات کے پونے نو بجے جاوید اقبال جنگ کے دفتر پہنچ گیا جہاں اس نے دو گھنٹے طویل انٹرویو دیا اور پھر پولیس اسے گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئی۔ اس کیس دلچسپ موڑ تب آیا جب ایڈیشنل اینڈ سیشن جج اﷲ بخش رانجھا کی عدالت میں عدالت نے ملزمان پر 17 فروری 2000 کو فرد جرم عائد کی تو ملزمان نے صحت جرم سے ہی انکار کر دیا۔ جاوید اقبال اب یوٹرن لے چکا تھا۔ وہی کیس جس کی ابتدا میں پولیس جاوید اقبال کے دعوے کو ماننے سے انکار کر رہی تھی، اب پولیس کیس ثابت کرنے اور جاوید اسے جھوٹا قرار دینے کی کوشش میں تھے۔

جاوید اقبال نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایک جھوٹی کہانی گھڑی تھی جس کا مقصد صرف اور صرف پولیس سسٹم میں خرابیوں کی نشاندہی کرنا اور گھروں سے بھاگے ہوئے بچوں کی اپنے پیاروں تک واپسی کو ممکن بنانا تھا۔ بہرحال کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوا تو چند ہی ہفتوں کے اندر اندر یعنی 16 مارچ 2000 کو جج اﷲ بخش رانجھا نے اس تاریخی کیس کا فیصلہ سنا دیا اور ملزم جاوید اقبال اور ساجد کو قصاص کے تحت سزا سنائی گئی جس میں حکم دیا گیا کہ مینار پاکستان کے سامنے متاثرہ والدین کی موجودگی میں ان کے جسم کے 100 ٹکڑے کر کے تیزاب میں ڈال کر محلول بنا دیے جائیں۔ عدالتی فیصلے کے مطابق زیادتی کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ اس عدالتی فیصلے کی جہاں عمومی طور پر پزیرائی ہوئی وہیں کچھ وکلا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور چند سنجیدہ حلقوں نے تنقید بھی کی اور اس فیصلے کو خلاف آئین و قانون قرار دیا۔

عدالتی فیصلے کے بعد اس کیس کی اپیل لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ کے سامنے لگی لیکن بینچ نے حدود آرڈیننس کا حوالہ دے کر معاملہ وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا جہاں ابھی کیس کی سنوائی ہونی تھی کہ جاوید اقبال اور ساتھی ملزم ساجد ایک ہی جیل میں اور ایک ہی وقت میں اپنے اپنے سیل کے اندر مردہ پائے گئے۔ لیکن جنگ اخبار کے سابق کرائم ایڈیٹر جمیل چشتی کہتے ہیں کہ اس کیس کی تفتیش میں بہت سے سوالات باقی ہیں۔ نا جانے وہ کسی انٹرنیشنل ریکٹ کا حصہ تھا جو اس طرح بچوں کی فلمیں بناتے ہیں۔ کیا اس کا جیل میں قتل اسی گروہ نے تو نہیں کرایا؟ یہ بہت سارے سوالات ہیں کہ جاوید اقبال کیا تھا؟ نہ جانے آج بھی کتنے جاوید اقبال موجود ہیں۔

https://youtu.be/WbLFun8-aEU

Back to top button