نہ خود مریں اور نہ دوسروں کو ماریں کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے

معروف صحافی جاوید چوہدری نے انتہا پسندی پر اترنے والے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جب کبھ
انکا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کا فیصلہ یقینا زندگی کے حق میں ہوگا۔ لہذا اگر کسی نے مرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے لیے بہتر
ہے کہ زندگی کے کنوئیں میں ڈوب کر مرے بجائے کہ موت کی وادی میں اتر کر جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔
حال ہی میں جائیداد کی خاطر اپنی اہلیہ وجیہہ سواتی کو قتل کرنے والے رضوان حبیب کے بارے میں لکھتے ہوئے جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ یہ یاد رکھیں کہ دنیا کی ہر چیز دنیا ہی میں رہ جاتی ہے لہٰذا کسی دنیاوی شے کی خاطر نہ تو خود کو نقصان پہنچائیں اور نہ ہی کسی دوسرے کا نقصان کریں کیونکہ زندگی ہے تو سب کچھ ہے اور زندگی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ جاوید بتاتے ہیں کہ وجیہہ سواتی کی عمر 46 سال تھی اور اس کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا۔ وہ ایم بی اے تھی اور اسکی پہلی شادی امریکا کے ایک بڑے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر بشیر المہدی کے ساتھ ہوئی تھی جسکے بعد وہ امریکا چلی گئی۔ اپنے پہلے شوہر کے قتل کے بعد وجیہہ نے سرجیکل آلات کی ایک کمپنی بنائی اور کاروبار شروع کر دیا۔ وہ بزنس کے سلسلے میں امریکا، پاکستان اور دوبئی تینوں جگہوں پر آنے اور جانے لگی۔ اس نے بے تحاشا پراپرٹی بھی خرید لی۔ وہ 2014 میں دوبئی میں بزنس وزٹ پر تھی کہ اچانک رضوان حبیب سے ملاقات ہوئی اور وہ اس ظالم کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔
ایک ڈاکٹر کی بیوہ وجیہہ نے رضوان حبیب سے شادی کر لی۔ یہ خاتون خوب صورت بھی تھی، امیر بھی تھی، جائیداد کی مالک بھی تھی اور کروڑوں روپے کا کاروبار بھی کرتی تھی جب کہ رضوان نکما تھا، پراپرٹی کا کام کرتا تھا اوربیوی سے پیسہ منگوا کر کھاتا تھا۔ وجیہہ کے تین بیٹے تھے، یہ امریکا میں ماں کے ساتھ رہتے تھے، 2020 میں پراپرٹی کی وجہ سے دونوں کے درمیان اختلافات ہوئے اور معاملہ لڑائی جھگڑے تک پہنچ گیا۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ وجیہہ 2021 کے شروع میں پاکستان آئی، اسکا جائیداد کے معاملے پر رضوان سے سوبارہ جھگڑا ہوا اور وہ واپس امریکا چلی گئی۔ اس نے واپس جا کر دوسرے خاوند کا نمبر بلاک کر دیا۔ ڈی ایچ اے راولپنڈی میں اس کا گیارہ کروڑ روپے کا گھر تھا، وجیہہ نے وہ مکان اپنے نام ٹرانسفر کرانے کی قانونی کوششیں شروع کر دیں۔ یہ مکان وجیہہ نے رضوان کے نام پر خریدا تھا لیکن اب وہ بے ایمان ہو چکا تھا بھی نہیں دینا چاہتا تھا اوراس سے رقم بھی اینٹھنا چاہتا تھا۔ بہرحال قصہ مختصر رضوان نے اپنی بہنوں کے ذریعے وجیہہ سے رابطہ کیا اورمکان ٹرانسفرکا چکر دے کر اسے پاکستان بلا لیا۔
رضوان نے 16 اکتوبر کو اسے ائیر پورٹ سے لیا اور لے کر گھرآ گیا۔ دونوں کی لڑائی ہوئی اور رضوان نے اسے چھری مار کر اور گلا دبا کر قتل کر دیا، لاش پیک کی، ڈکی میں ڈالی، جنڈ پہنچا‘ اپنے والد کو ہنگو سے بلایا، لاش اس کے حوالے کی اور گھر واپس آ گیا، اسکا والد لاش کو خاندانی ملازم سلطان کے گائوں لے گیا، دونوں نے سلطان کی بہن کے گھر میں گڑھا کھودا، لاش دفن کی اورگائوں واپس چلے گئے۔
وجیہہ سواتی نے 22 اکتوبر کو امریکا واپس پہنچنا تھا، وہ نہ پہنچی تو عبداللہ نے اپنے وکیل کے ذریعے تھانے میں گم شدگی کی رپورٹ درج کرا دی۔ پولیس نے رضوان کو بلا کر ہلکی سی تفتیش کی اور فائل لپیٹ کر بیٹھ گئی۔ عبداللہ نے عدالت سے رجوع کر لیا، جج نے پولیس کو طلب کر لیا۔ اس دوران امریکی ایمبیسی بھی اس کیس میں شامل ہوگئی۔ جج نے 30 دسمبر تک مجرم کو گرفتار کرکے تفتیش کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ رضوان کو گرفتار کر لیا گیا اور اس نے اپنا جرم قبول کر لیا۔
رضوان نے بتایا کہ میرے والد نے مجھے کہا تھا پاکستان میں 50 ہزار روپے میں کسی کو بھی قتل کرایا جا سکتا ہے، تم یہ رقم ادا کرو اور اس سے جان چھڑا لو، یوں میں نے وجیہہ کو قتل کر دیا۔ رضوان کی نشان دہی پر لاش برآمد ہوئی، آلہ قتل بھی مل گیا اور رضوان کا والد اورملازم بھی گرفتار ہو گئے۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ وجیہہ سواتی کا کیس آج کل میڈیا میں تواتر سے ڈسکس ہو رہا ہے۔ پولیس روزانہ کی بنیاد پر تفتیش کر رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر چیزیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ اب تک کی تفتیش سے تین چیزیں سامنے آئی ہیں۔ شادی محبت کی تھی لیکن محبت کا شعلہ سرد پڑ گیا اور میاں بیوی میں ناچاقی تھی۔ خاتون خاوند کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی مگر خاوند ہر صورت اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔ دوسرا یہ کہ خاوند بیوی کی زمین جائیداد اور رقم ہتھیانا چاہتا تھا۔ وہ ڈی ایچ اے کا گھر بھی اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا تھا اور تیسری وجہ والد نے اسے اکسایا اور یہ نفرت کی رو میں بہتا چلا گیا۔ یوں خاتون جان سے چلی گئی۔ جاوید کہتے ہیں کہ ہم اگر سردست ان وجوہات کو اصل مان لیں تو سوال پیدا ہوتا ہے خاتون، اسخے خاوند اور اسخے والد نے اس سارے کھیل سے کیا حاصل کیا؟ خاتون اپنی پراپرٹی بچاتے بچاتے جان سے چلی گئی۔ خاوند پراپرٹی کے لالچ میں قتل کے الزام میں گرفتار ہوگیا اور والد بھی بڑھاپے میں لالچ میں شریک جرم بن گیا۔ یہ دونوں اب سزائے موت اور عمر قید بھگتیں گے اور یہ جس مکان کے لالچ میں اندھے ہو گئے تھے وہ مقدمے بازی کی نذر ہو جائے گا یا پھر اس پر کوئی اور قابض ہو جائے گا چناں چہ پھر کس نے کیا پایا؟ ذلت‘ خواری‘ سزائے موت اور عمر قید! کس کو کیا ملا؟
امریکہ کے ایک انکار پر پاکستانی ڈالر ردی ہو جائیں گے
یہ لوگ اگر اس کے برعکس ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ جاتے‘ اپنے تنازعے‘ اپنے ایشوز ایک دوسرے کے ساتھ ڈسکس کرتے‘ رضوان حبیب کا والد بزرگ کا کردار ادا کرتا‘ ملازم سلطان قتل کے معاملے میں معاونت سے انکار کر دیتا تو یہ تمام لوگ بچ جاتے‘ خاوند پراپرٹی کی سیٹل منٹ کر کے بیوی کو طلاق دے دیتا۔ بیوی اگر خاوند کومکان دے دیتی تو ٹھیک ورنہ یہ اپنا سامان اٹھاتا اور زندگی کا سفر نئے سرے سے اسٹارٹ کر لیتااور بیوی کو اللہ تعالیٰ نے بے تحاشا نوازا تھا‘ یہ اگر مکا ن کی قربانی دے دیتی تو تمام لوگ ذلت اور خواری سے بھی بچ جاتے اور بے مقصد موت سے بھی لیکن انسان کے بارے میں کہتے ہیں یہ جب کسی لالچ اور نفرت کے بھنور میں پھنستا ہے تو پھر یہ پھنستا ہی چلا جاتا ہے‘ یہ دائیں بائیں نہیں دیکھتا اور یوں یہ آخر میں ڈوب کر مر جاتا ہے۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ میں بار بار یورپ اور امریکا کی مثالیں دیتا ہوں‘ میرے دوست مجھے یورپ سے مغلوبی کے طعنے بھی دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے یورپین زندگی کے اصل حقائق سے واقف ہو چکے ہیں لہٰذا یہ ایسے ایشوز پر ایک دوسرے سے لڑتے نہیں ہیں‘ یہ مل بیٹھ کر مسئلہ حل کر لیتے ہیں‘ بل گیٹس اور ان کی اہلیہ میلینڈا گیٹس کے درمیان 27سال کی طویل رفاقت کے بعد مئی 2021 میں طلاق ہو گئی‘ یہ تاریخ کی سب سے مہنگی طلاق تھی۔ بل گیٹس کو قانون کے مطابق میلینڈا کو 76بلین ڈالر کے اثاثے دینا پڑگئے‘ پاکستان کے کل مالیاتی ذخائر24بلین ڈالرز ہیں‘ بل گیٹس نے ہم سے تین گنا زیادہ رقم طلاق میں دے دی‘ بل گیٹس بھی اگر چاہتا تو یہ رقم بچا سکتا تھا‘ یہ جاسوس ہائر کر کے بیوی پر الزامات لگا دیتا یا عدالت میں وکلاء کا لشکر کھڑا کر دیتا لیکن اس نے اس کے بجائے طلاق اور رقم دی اور دونوں نے اپنی اپنی چار پائی الگ کر لی‘ یہ اب بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور بچوں کو بھی وقت دیتے ہیں بس یہ دونوں میاں بیوی نہیں ہیں۔
اب سوال یہ ہے ان دونوں کو اس ’’بے غیرتی‘‘ کا کیا فائدہ ہوا؟ دراصل انہیں اس بے غیرتی کا بے انتہا فائدہ ہوا۔ بل گیٹس مزے سے اپنے کام پر توجہ دے رہا ہے اور میلینڈا پورے فوکس کے ساتھ فائونڈیشن کے کام کر رہی ہے جبکہ یہ اگر دوسرے راستے کا انتخاب کرتے تو یہ عدالتوں کی وجہ سے اس وقت تک پاگل بھی ہو چکے ہوتے اور ان کا کام بھی تباہ ہو چکا ہوتا اور یہ بھی عین ممکن تھا یہ دونوں یا کوئی ایک کیس کے آخر تک خود کشی بھی کر جاتا لہٰذا پھر بہتر کیا ہوا؟ جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ لہٰذا میرا آپ کو مشورہ ہے آپ گھریلو تنازعوں کی صورت میں ایک دوسرے کو طلاق دیں۔ رقم اور جائیداد تقسیم کریں، بچوں سے میل ملاقات کا فارمولا طے کریں اور زندگی کے سفر میں آگے کی طرف دوڑ پڑیں۔ نفرت اور لالچ میں لڑنے، مرنے اور تباہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے۔
