عدت میں شادی کی خبروں پر جویریہ صدیق برہم

سینئر صحافی ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے سوشل میڈیا پر اپنی خفیہ شادی کی خبروں پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بطور معاشرہ کس طرف جارہے ہیں؟ اتنی تنزلی کا شکار ہیں کہ کسی بیوہ کو اس کی شرعی عدت یا سوگ میں بھی چین نہیں لینے دے رہے؟ کیا مجھے رونے اور سوگ منانے بھی نہیں دیں گے؟

 

جویریہ صدیق انڈیپنڈنٹ اردو کیلئے اپنی ایک تحریر میں کہتی ہیں کہ جب میں نے 11 سال پہلے شادی کی تو اس وقت بھی لوگوں نے میری نجی زندگی کو متنازع کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے کبھی کسی کو جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ارشد شریف کی زندگی میں شاید ہی ہم نے کبھی نجی زندگی پر بات کی ہو۔ ہم دونوں کا اصول تھا کہ صرف کام شیئر کرنا ہے، کام پر بات کرنی ہے۔ نظریات پر تنقید ہو سکتی ہے لیکن کسی کی نجی زندگی پر بات نہیں کرنی اور نہ ہی کسی کو اپنی زندگی میں دخل دینے دینا ہے۔ارشد شریف چونکہ تحقیقاتی صحافت کرتے تھے تو ہمیں بہت دھمکیاں آتی تھیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی مشترکہ تصاویر اب سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کریں گے اور میں نے اپنے سوشل میڈیا سے ان کا نام ہٹا دیا جبکہ میرے شناختی کارڈ پر ان کا نام اب بھی درج ہے۔

 

جویریہ کا مزید کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر تصاویر ہٹانے سے یہ ہوا کہ ٹرولز کو ہماری فیملی کی معلومات ملنا تقریباً ناممکن ہو گیا اور وہ میرے نجی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بھی تلاش نہیں کر پاتے تھے۔تاہم ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ان کی اچانک موت سے ہماری نجی زندگی پبلک کے سامنے آجائے گی۔ لوگ ہٹس اور لائیک کے چکر میں ہماری نجی زندگی میں دخل دینے لگے۔ اس وقت ہمارے فون نمبرز، گھر کا پتہ، آئی کارڈز سب پبلک ہو گئے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور میڈیا کسی کی نجی زندگی کا خیال تک نہیں کرتے۔فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک ہونے سے ہماری نجی زندگی بہت متاثر ہوئی، مجھے اپنے شوہر کی میت کی بہت سی تصاویر اس میں نظر آئیں، جو میرے لیے بہت تکلیف کا باعث تھا۔

جویریہ کے مطابق 23 اکتوبر سے 27 اکتوبر تک میں قینچی چپل میں بھاگ دوڑ کر رہی تھی۔ میرا کوئی بھائی نہیں، ارشد کا کوئی بھائی نہیں، یہ سب کرنا آسان نہیں تھا۔ میں ایک وقت فٹ پاتھ پر بیٹھ کر رو رہی تھی، جب ان کی میت وصول ہو گئی تو پوسٹ مارٹم سے تدفین تک ایک کٹھن ترین مرحلہ تھا۔میں نے ڈاکٹر سے اجازت لی۔ تدفین سے پہلے سرد خانے میں، چھ میتوں کے درمیان میں شوہر کے جسد خاکی پر سورہ یٰسین اور سورہ ملک پڑھ رہی تھی۔ منفی درجہ حرارت، چھ میتیں اور ساتویں میت میرے شوہر کی تھی۔ میرے شوہر ایک فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ ابدی نیند سو رہے تھے۔ ان کے چہرے پر سکون تھا، نور اور ہلکی شیو تھی۔ان کے جنازے کے بعد میرے قرآن کے اساتذہ میرے پاس آئے۔ مجھے کہا کہ اگر معاشی یا طبی مسائل ہوں تو میں گھر سے باہر جا سکتی ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ معاشی مسائل نہیں ہیں اور غم بہت زیادہ ہے تو ڈاکٹرز بھی گھر آ جائیں گے، مجھے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ میں عدت کے چار ماہ دس دن گھر سے مکمل کروں گی۔میں اکتوبر سے کالے رنگ میں ہوں حالانکہ میرے اساتذہ نے مجھے کہا کہ میں کوئی بھی رنگ پہن سکتی ہوں  لیکن دل نہیں کرتا۔ ارشد نے مجھے اپنی زندگی میں نعمتوں، آسائشوں سے مالامال رکھا۔ ان کی وجہ سے زندگی میں محبت اور تحفظ تھا جو اب نہیں رہا تو ہر چیز سے دل بوجھل ہوگیا ہے۔

 

جویریہ صدیق مزید کہتی ہیں میں یہ سطور بھی اپنی عدت میں لکھ رہی ہوں، ایک رنجیدہ دل کے ساتھ آنسو صاف کرتے ہوئے اپنی صفائی پیش کر رہی ہوں کیونکہ پاکستانی سوشل میڈیا نے مجھے مجبور کر دیا۔لوگ سفاکی میں کسی حد تک بھی گرسکتے ہیں۔ مجھے میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ وضاحت دینا پڑی کہ میں شرعی عدت میں ہوں، میں نے شادی نہیں کی۔میری عدت کی مدت ابھی جاری ہے، شاید میں نے تو دن بھی نہیں گننے کیونکہ وہ شریک حیات جس سے آپ محبت کرتے ہوں، اس کے جانے کے بعد زندگی موت تک ہی سوگ لگتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اپنے پیارے کے جانے کے بعد والی زندگی سزا کے طور پر گزارنا پڑتی ہے، تو یہی سزا میں بھی کاٹ رہی ہوں۔ ارشد چلے گئے اور میں زندہ ہوں، تاہم پاکستانی معاشرے میں سے کچھ لوگ مجھے زندہ درگور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

 

مجھ پر عدت میں یہ الزام لگا دیا کہ میں نے شادی کر لی ہے۔ جس شخص کا نام لیا گیا میں ان کو جانتی ہی نہیں، نہ ہی ہماری کبھی بات ہوئی۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ اس ملک میں ایک بزرگ اور ایک بیوہ، دونوں کی عزت محفوظ نہیں۔ہم بطور معاشرہ کس طرف جارہے ہیں؟ اتنی تنزلی کا شکار ہیں کہ کسی بیوہ کو اس کی شرعی عدت یا سوگ میں بھی چین نہیں لینے دے رہے؟ کیا مجھے رونے اور سوگ منانے بھی نہیں دیں گے؟ ہر ہفتے میرا لیے نیا محاذ کھول دیتے ہیں۔ میرے پاس قلم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میرا سب سے قیمتی اثاثہ ارشد مجھ سے چھین لیا گیا، میرے پاس کیا بچا ہے؟ کچھ بھی نہیں!اب مجھ سے لڑائی، میرے خلاف منفی مہم سے کس کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟ میں نے شادی نہیں کی، دوران عدت مجھ پر ایسے الزامات لگانا میری جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔اسلام نے بیوہ عورتوں کو بہت سے حقوق دیے ہیں۔ ان کو مرحوم شوہر کی جائیداد میں حصہ ملتا ہے اور اسلام ان کو عدت کے بعد نکاح کا بھی حق دیتا ہے تاہم پاکستان میں بہت سے شرپسند اس وقت بھی بیوہ خواتین کی کردارکشی سے باز نہیں آتے، جب وہ شدت غم سے نڈھال ہوں۔لوگ پہلے سے غم زدہ لوگوں کو مزید تنگ کر کے کیا حاصل کر لیں گے؟ اس سے کچھ بھی نہیں ہوگا، صرف آپ اپنے گناہوں کا بوجھ مزید بڑھاتے ہیں۔ہم کب تک اپنے عقیدوں، پارسائی اور عبادات کا ثبوت دیتے رہیں گے؟ پتہ نہیں یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ آج اپنے میرے خلاف آوازوں کو چپ نہیں کروایا تو کل یہ آپ کے خلاف بھی اتنی شدت سے سامنے آئیں گی۔

صنم جنگ موٹی سے ’’پیاری مونا‘‘ کیسے بنی؟

Related Articles

Back to top button