میچ معجزے اور دعا سے نہیں بلکہ پرفارمنس کی بنیاد پر جیتے جاتے ہیں

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے چیمپینز ٹرافی کے اہم ترین میچ میں انڈیا کے ہاتھوں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں قومی ٹیم کی شکست قومی صدمہ ہوتا ہے مگر شکست میں سازش کا پہلو تلاش کرنے کی بجائے حقائق کو زیر غور لایا جاتا ہے ۔ صاف اور منطقی ذہن سے جائزہ لیا جائے تو پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ٹیکنیک، پرفارمنس اور

اعتماد میں بھارتی کرکٹ ٹیم سے کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ بھارت کے کھلاڑی مکمل طور پر پروفیشنل کرکٹرز ہیں جنہوں نے پاکستان کے خلاف ماڈرن ڈے کرکٹ کھیلی، انکا کرکٹ کا ڈھانچہ بہت مضبوط ہے۔ دوسری جانب ہمارے کھلاڑیوں سمیت پاکستانی عوام دعاؤں کے زور پر جیت کے لیے کسی معجزے کے انتظار میں تھے جو آج کی دنیا میں کم کم ہوتے ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی طنزیہ تحریر میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے ہار سکتا ہے! یقیناً یہ بین الا قوامی سازش ہے، دراصل امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان جیت جائے، وہ اس خطے میں اپنے سٹرٹیجک پارٹنر بھارت کو جتوانا چاہتا تھا۔ اسرائیل بھی پاکستان کی جانب سے غزہ کے مسلمانوں کی حمایت پر ہم سے ناراض ہے، لہٰذا اس نے بھارت کو ہماری ٹیم میں پھوٹ ڈالنے کے حربے بتائے ہوں گے۔ بھارت نے کرکٹ میچ سے پہلے ہی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ اسی لیے ایک رئیل سٹیٹ مالک کی کار دبئی سٹیڈیم بھیجی گئی جو پاکستانی کھلاڑیوں کے حواس باختہ کرنے کے آلات سے لیس تھی۔ اسکے علاوہ پاکستان کو میچ ہروانے کے لیے دبئی کا جوا مافیا بھی سر گرم عمل تھا۔ امریکہ، اسرائیل اور بھارت نے اس مافیا کو بے شمار رقم فراہم کی اور اس امر کو یقینی بنایا کہ پاکستان کو بہ ہر صورت شکست سے دوچار کرنا ہے۔

سہیل وڑائچ اپنی طنزیہ تحریر میں کہتے ہیں یہ ایک بہت بڑی سازش تھی اس کا آغاز رجیم چینج “ سے ہوا تھا۔ اسی وقت بین الا قوامی طور پر یہ بھی طے کر لیا گیا تھا کہ چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کو بھارت سے شکست دلوانی ہے وگرنہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو کون ہر اسکتا ہے؟ امریکہ نے ڈونلڈ لو کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ پاکستان میں سازش کے ذریعے حکومت بدلوائیں، چنانچہ ڈونلڈ لو نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے دوران اراکین اسمبلی کی جگہ انہی کے ہمشکل روبوٹس بھجوا دیئے، اگر امریکہ یہ جدید ٹیکنالوجی استعمال نہ کرتا تو اراکین اسمبلی عمران خان جیسے محب وطن وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کیوں کرتے؟ جب وزیر اعظم کو تبدیل کر دیا گیا تو نئے وزیر اعظم کو امریکہ نے دباؤ ڈال کر یہ پیغام دیا کہ آپ جو مرضی کریں مگر آپ نے کرکٹ ٹیم کو ہر صورت کمزور کرنا ہے، بس اس سازش کی اہم ترین کڑی یہ ہے۔ اس بین الا قوامی سازش کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے سی این این کے جنوبی ایشیا میں سابق نمائندے محسن نقوی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئر مین بنا کر امریکی، اسرائیلی اور بھارتی سازش پر عمل درآمد کا ٹاسک سونپا گیا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ محسن نقوی کی جانب سے تین ماہ کے مختصر عرصے میں لاہور اور کراچی کے شاندار سٹیڈیمز تیار کر کے جھوٹی امید پیدا کی گئی، موجودہ اور سابق کھلاڑیوں کو نوازا گیا ان کے منہ پیسوں اور عہدوں سے بھر دیئے گئے، یوں سازش کے سارے لوازمات پورے کر دئیے گئے۔ ہم تو دراصل ناقابل شکست ہیں کیونکہ ”مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“۔ سقوط بغداد ہو، سقوط غرناطہ ہو یا سقوط ڈھاکہ، یہ سارے سانحے غیروں کی سازش کی وجہ سے رونما ہوئے۔ وگرنہ ہم تو دشمنوں سے زیادہ عقلمند اور بہترین اسلحے سے مالا مال تھے۔ ہم صدیوں سے کبھی خود نہیں ہارے، ہمیں ہمیشہ ہروایا گیا ہے۔

سہیل وڑائج لکھتے ہیں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دبئی میں ایک اہم ترین میچ میں ہرانے کی سازش کو حتمی شکل بھارتی وزیر اعظم مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان میچ سے پہلے امریکہ میں ہونے والی ملاقات میں دی گئی، اس ملاقات کی تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں مگر بیرون ملک بیٹھے یوٹیوبرز خفیہ تفصیلات کا کھوج لگا چکے ہیں، ان کے مطابق اس ملاقات کا اصل ایجنڈا پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ہر صورت ہروانا تھا۔ دبئی چونکہ اسرائیل کے قریب تھا اس لئے نیتن یاہو کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ اس ناپاک منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ پاکستانی یوٹیوبر نے دو یہودیوں کو دبئی کے مال میں سازشی عزائم کے ساتھ چلتے پھرتے خود دیکھا ہے جس سے اس سازش کی کڑیاں کھل کر سامنے آگئی ہیں۔

سہیل وڑائچ اپنی طنزیہ تحریر میں کہتے ہیں کہ اس سازش سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت غدار ہے، پی سی بی غدار ہے، چیئر مین خریدا ہوا ہے اور سلیکشن کمیٹی کے اراکین بھی اس عالمی گٹھ جوڑ کا شکار ہو چکے تھے، یہ سب

نا اہل ہیں سب غلط ہیں، ہم ہارے ہیں تو یقیناً عالمی سازش کہ وجہ سے۔ انکا کہنا یے کہ پاکستانی ذہن میں شک وشبہ اور سازش کا غلبہ ہے مگر ہمیں تصویر کا دوسرا رخ ضرور دیکھنا چاہئے۔ دنیا بھر میں قومی ٹیم کی شکست قومی صدمہ ہوتا ہے مگر شکست میں سازش کی بجائے حقائق کو زیر غور لایا جاتا ہے ۔ صاف اور منطقی ذہن سے جائزہ لیا جائے تو پاکستانی کرکٹ ٹیم نے دبئی کے اہم ترین میچ میں 1980 کے زمانے کا کھیل کھیلا۔ ہمارے باولرز نے مار کھائی اور ہمارے بیٹسمین سکور کرنے میں ناکام رہے۔ دوسری جانب بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں نے ماڈرن ڈے کرکٹ کھیلی۔ انہوں نے پاکستانی بیٹسمینوں کو سکور کرنے سے روکا اور بعد میں وکٹ کے چاروں جانب شارٹس مار کر اپنا مختصر ہدف کامیابی سے حاصل کیا۔

سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ میچ کے دوران پاکستانی کرکٹ بورڈ کے چیئر مین محسن نقوی اور ان کے ہمراہی سمیر سید اور سلمان نصیر بار بار سٹیڈیم میں اپنے فلور پر موجود چھوٹی سی مسجد میں جا کر دعائیں کرتے تھے، وہاں موجود شہباز شریف کی بیٹی خدیجہ اپنے خاوند کے ہمراہ پاکستانی کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پر آنسو بہاتی تھیں، آصفہ بھٹو، بختاور بھٹو اور ان کے خاوند محمود پاکستانی کھلاڑیوں کے چوکے چھکے پر کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے تھے مگر بقول مرحوم و مغفور نوابزادہ نصر اللہ خان ”بلائیں بھی کبھی دعاؤں سے ٹلی ہیں“۔

وفاقی کابینہ میں توسیع کا فیصلہ تنقید کی زد میں کیوں؟

سہیل وڑائچ کے بقول آج کی عملی دنیا میں تجربہ، پروفیشنلزم اور مصمم ارادہ ہی فتح دلا سکتا ہے۔ پاکستانی کھلاڑی ان حوالوں سے بھارت سے بہت پیچھے تھے اس لئے ہار سے کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے، اگر پاکستانی ٹیم انڈیا کے خلاف جیت جاتی تو یہ معجزہ ہی ہوتا جس پر یقینا ہمیں حیرت ہوتی۔ پاکستانی کرکٹ کا ڈھانچہ بھارت کے مقابلے میں بہت کمزور ہے، ہمارے کھلاڑی خود رو ہیں، وہ کسی منظم ٹریننگ اور سسٹم سے تیار ہو کر نہیں آتے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کرکٹ کا میرٹ پر مبنی کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔ ماضی میں بینک اور سرکاری ادارے کرکٹرز کو اچھی ملازمت دے دیتے تھے اور کھلاڑی اپنے روز گار سے بے فکر ہو کر کھیلتے تھے وہ نظام بھی عمران خان کے دور حکومت میں ختم کر دیا گیا۔ شکست کا صدمہ بجا مگر جب ٹیم ہی کمزور تھی تو پھر ہماری شکست تو یقینی تھی۔ اب خود احتسابی ہی بہترین لائحہ عمل ہے۔ ٹیم کے چناؤ میں سپنرز کی کمی، آل راؤنڈرز کا نہ ہونا، اور کھلاڑیوں میں عزم اور ٹیم سپرٹ کے فقدان کا جائزہ لینا ضروری ہے، اب بے تیغ لڑنے کا زمانہ گزر چکا، دعاؤں سے بلائیں نہیں ٹلتیں اور معجزوں سے ٹیمیں نہیں جیتا کرتیں، سازش سازش کا شور کرنے سے بیٹنگ اور باولنگ ٹیکنیک کی کمزوریاں نہیں چھپتیں۔ چنانچہ آنسو پونچھ لیں کیونکہ 29 سال بعد انٹر نیشنل کرکٹ پاکستان واپس آ چکی ہے، ہم لوگ خوش ہوں کہ نئے سٹیڈیم بن گئے ہیں، لہذا دکھی ہونے کی بجائے ہمیں کھلاڑیوں کو ماڈرن ڈے کرکٹ سکھانے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی جس میں بیٹسمین وکٹ کے چاروں جانب شارٹس لگاتے ہیں اور باؤلر اچھے سے اچھے بیٹسمین کو رنز کرنے سے روکتے ہیں، یہ سمجھنا ضروری یے کہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے، آج اگر ہم انڈیا سے ہارے ہیں تو ماضی میں انڈیا کو ہرا کر جیتتے بھی رہے ہیں، ہم آئندہ کے کیے اچھی تیاری کریں گے تو مستقبل میں دوبارہ جیت بھی جائیں گے۔

Back to top button