نواز شریف اور فوجی قیادت میں اختلافات کا امکان کیوں بڑھ گیا ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے کردار ادا کرنے کی حامی بھر کر ایک بہت بڑا رسک لیا ہے جس کا نتیجہ ان کے اور فوج کے اختلافات کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے، انکے مطابق بلوچستان کا مسئلہ وہ پہلا مشکل مرحلہ ہے جس میں ان کا فوج سے تنازع ہو سکتا ہے، اور بلوچستان حکومت سے تو لازمی جھگڑا ہو گا، وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور میاں نواز شریف کی ملاقات پر خوش نہیں ہوں گے، وہ فوجی قیادت کے کان بھریں گے اور بلوچستان کے مسئلے کا پرامن حل نکالنے کی نواز شریف کی کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔ لہٰذا رائیونڈ کا بوڑھا شیر واقعی امتحان میں پڑ گیا ہے!!

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پہلوانوں کے گزشتہ دو سال کے جوڑ توڑ طے شدہ تھے، اس دوران داؤ پیچ ضرور دکھائے گئے مگر وہ سب نمائشی تھے۔ رائیونڈ کے بوڑھے شیر اور بلوچستان کے اژدھے میں پڑنے والا جوڑ نہ صرف پاکستان کے لیے فیصلہ کن ہو گا بلکہ بوڑھے شیر کی آسان تر زندگی کیلئے ایک مشکل ترین چیلنج بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کا عفریت اب ایک اژدھا بن چکا ہے۔ ریاست، فوج، پنجاب اور عوام سب بھری محفلوں میں اس اژدھے سے نمٹنے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ عام طور پر اس اژدھے کا سر کچلنے کے لیے تین راستے اختیار کرنے کی تجاویز دی جاتی ہیں۔

بقول سہیل وڑائچ، پہلا راستہ طاقت کا استعمال ہے اور کہا جاتا ہے کہ اژدھے کے پھیلے ہوئے پھن کو طاقت سے کچلنے کے سوا اور کوئی ر استہ نہیں۔ دوسرا راستہ یہ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ اژدھا بلوچ عوام کی محرومیوں کے باعث پیدا ہوا لہٰذا اس کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہیئے، طاقت کے استعمال سے اژدھے کی طاقت روز بروز بڑھ رہی ہے لہٰذا اگر سیاست بروئے کار لائی جائے تو اژدھے کا پھن خود بخود سکڑ جائے گا اور وہ دوبارہ پہاڑوں میں جا چھپے گا۔ تیسرا مجوزہ راستہ یہ ہے کہ ریاست اس مسئلے کو دوشاخہ حل کے ذریعے نمٹائے۔ یعنی اژدھے کی دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی لڑی جائے اور جو لوگ دہشت گردی میں ملوث نہیں، اور سیاسی محرومیوں کا شکار ہیں انہیں سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے اور اژدھے سے الگ نمٹا جائے۔ بظاہر بوڑھا شیر اور چھوٹا شیر دونوں اس مسئلے میں طاقت کی بجائے سیاست کو بروئے کار لانا بہتر سمجھتے ہیں، اسی لئے بوڑھے شیر نے نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک سے بھرپور سیاسی پروٹوکول کے ساتھ ملاقات کی ہے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق بوڑھے شیر کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ اس نے سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک بلوچ جیسے قوم پرست لیڈرز کو بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ بنا کر اس مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کی کوشش کی تھی مگر دونوں مرتبہ ان کی حکومت ختم کر دی گئی اور یوں معاملات بگڑ گئے۔بوڑھے شیر کا تجربہ اپنی جگہ، وہ مودی اور جنوبی ایشیا کے ہر لیڈر سے تجربے میں سینئر سہی، لیکن اس بات چیلنج بہت بڑا ہے۔ بلوچ دہشت گردی کے اژدھے سے لڑنے والی ٹیم نہ ہم خیال ہے اور نہ ہی اس میں اتفاق ہے۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی، سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ، سابق چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور بلوچستان کی صوبائی کابینہ کے اکثر اراکین سمجھتے ہیں کہ اژدھے کا اب ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے اس سے کھلی جنگ، ان کے بقول دہشت گردوں سے مذاکرات کا کوئی جواز نہیں کیونکہ ان کا نعرہ تو پاکستان کو توڑنا اور بلوچستان کو آزاد کرانا ہے۔ انکا موقف ہے کہ پنجابی اور پٹھان مزدوروں کو چن چن کر مارنے والوں سے مذاکرات نہیں بلکہ صرف اور صرف جنگ ہونی چاہئے۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستانی فوجی قیادت ابھی تک اوپر دیے گئے تینوں آپشنز پر غور کر رہی ہے، شاید اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ ویسے بھی بوڑھے شیر کا اژدھے کے جنگل میں اترنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی اس مسئلے پر سیاست کی تھوڑی بہت گنجائش موجود ہے۔

اب اہم سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا بوڑھا شیر آگ برساتے اژدھے کو بے اثر کر سکے گا؟ پاکستانی فیصلہ سازوں کی اکثریت اژدھے سے لڑنے پر یقین رکھتی ہے آدھی ریاست فوجی آپریشن شروع کرنے پر تلی ہوئی ہے، بلوچستان کے موجودہ حکمران بھی اسی سوچ پر یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا بوڑھا شیر ان سب اتحادیوں سے الگ ہو کر امن کی سیاست کا پرچم بلند کر سکے گا؟

سہیل وڑائچ کو ایسا ہونا مشکل لگتا ہے۔ انکے مطابق 2013ء اور 2025ء میں بہت فرق ہے، اژدھا اور اس کا فلسفہ مضبوط اور مزید توانا ہو چکا۔ ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل دہشت گردی کے اژدھے کے سامنے اس قدر بے بس ہیں کہ وہ پنجابیوں اور پشتونوں کے قتل کی مذمت تک نہیں کر سکتے۔ ایسے میں امن پرستوں اور سیاست کاروں کے پیروں کے نیچے سے زمین سرک چکی ہے، اب یا تو اژدھا ہے یا پھر اس کا سر کچلنے والی قوت۔ اقتدار کی راہداریوں سے یہ خبر ملتی رہی ہے کہ چھوٹا شیر ہر بار وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کو یہی کہتا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی سیاسی راستہ تلاش کیا جائے۔ جواباً وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ ہم ان سے کس بات پر مذاکرات کریں، دہشت گردی کرنے والے بلوچ قوم پرست عناصر تو پاکستان سے آزادی مانگتے ہیں یا طاقت اور دہشت گردی کے زور پر آزادی چھیننا چاہتے ہیں۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ پنجاب کی رائے عامہ شروع میں بلوچستان کے سیاسی حل کو واحد راستہ سمجھتی تھی۔ بلوچستان کی محرومیوں اور سیاسی عدم تحفظ پر بھی بلوچ کاز کو عمومی حمایت حاصل تھی، لیکن جب سے بلوچستان سے پنجابیوں کی لاشیں آنا شروع ہوئی ہیں، تو سوچ بدل گئی ہے اور ردعمل وہی ہو گیا جو ایم کیو ایم کی جانب سے دہشت گردی کو کارروائیوں پر ہوتا تھا۔ اب اکثریتی رائے یہی ہے کہ اژدھے کا سر کچلنا ضروری ہے ورنہ یہ تائثر جائے گا کہ وہ ریاست سے ذیادہ مضبوط ہو گیا ہے؟ دوسری طرف یہ خوف بھی موجود ہے کہ کشت وخون سے کہیں بلوچستان بھی نیا بنگلہ دیش نہ بن جائے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ہے، آصف زرداری نے تو بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے کوئی نیا راستہ تجویز نہیں کیا، لیکن چیئرمین بلاول بھٹو کی تقریر سے یہی سمجھ آتی ہے کہ وہ اس مسئلے کو پہلے سیاسی طور پر حل کرنے کے حامی ہیں، گویا مرکز میں برسر اقتدار دونوں جماعتیں سیاسی حل پر یقین رکھتی ہیں۔ پی ٹی آئی چونکہ ہر مدعا فوج اور حکومت پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے اس لئے وہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کی مخالف ہے، لیکن ماضی میں وہ دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کی پالیسی پر کاربند رہی ہے۔

26 ویں ترمیم کی خوبصورتی عدلیہ کا احتساب ہے ، اگر ججز کیسز نہیں سن سکتے تو گھر جائیں، وزیر قانون

سہیل وڑائچ کے مطابق رائیونڈ کا بوڑھا شیر، سوائے تحریک انصاف کے ساتھ جھگڑنے کے، اب تک کسی بڑے تنازع سے بچتا رہا ہے، وہ ایک کھلی آنکھ سے سب دیکھتا رہا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ وہ پہلا مشکل قدم ہے جس میں اسکا فوج سے تنازع ہو سکتا ہے، وفاقی کابینہ میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے اور بلوچستان حکومت سے تو لازمی جھگڑا ہو گا۔ دوسری جانب دہشت گردی کا اژدھا بھی آسانی سے قابو میں نہیں آئے گا، وہ پہلے ہی آئے روز کارروائیاں کر رہا ہے اور کچھ بڑا بھی کر سکتا ہے، اژدھےکو امن نہیں بلکہ لڑائی سوٹ کرتی ہے اور اس کا کام سیاست نہیں انتشار سے بنے گا۔ لہٰذا بوڑھا شیر اس مرتبہ واقعی امتحان میں پڑ گیا ہے!!

Back to top button