تقریب رونمائی سے ایک قدم آگے!
تحریر: عطا ء الحق قاسمی ۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ جنگ
میں نے بہت دنوں سے اندرون ِملک اور بیرونِ ملک کی تقریبات میں جانا بہت کم کیا ہوا ہے۔ مگر جب گزشتہ روز الطاف حسن قریشی صاحب کا حکم موصول ہوا کہ آپ نے پنجاب یونیورسٹی کیمپس میں آنا ہے اور ضرور آنا ہے۔ مگر پرابلم یہ تھا کہ میرا ڈرائیور اتوار کے روز حسب معمول چھٹی پر ہوتا ہے اور میں نے ایک طویل عرصے سے ڈرائیونگ چھوڑی ہوئی ہے،جس کیلئے ان رستوں کے مسافروں کو میرا شکر گزار ہونا چاہیے جو مجھے دیکھ کر ہٹو بچو کے نعرے لگاتے ادھر ادھر ہو جایا کرتے تھے۔ میرا یہ عذر سن کر الطاف قریشی نے فرمایا کوئی بات نہیں آپ کو لینے کار آ جائے گی۔ جب کار میرے گھر پر آ کر رکی تو میں نے دیکھا کہ ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اپنی وضع قطع سے پہچاننے والا ڈرائیور نہیں بلکہ ڈاکٹر پروفیسر امان اللہ پرنسپل لاء کالج بذاتِ خود تشریف فرما تھے۔ جب یونیورسٹی کے گیسٹ ہائوس کے ہال میں پہنچے تو وہاں یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود کے علاوہ یونیورسٹی کے اساتذہ خاصی تعداد میں موجودتھے اور اساتذہ ہی نہیں، مجیب الرحمان شامی، سجاد میر، ڈاکٹر حسین پراچہ، اجمل شاہ دین، سلمیٰ اعوان، حفیظ اللہ خان نیازی اور دوسرے بہت سے عالی شان لوگ موجود تھے۔ الطاف حسن قریشی سب سے آخر میں تشریف لائے ۔ 93برس کی عمر میں رسماً کسی کا ہاتھ تھامے محفل میں آئے تو اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی،زندگی سے بھرپور ہمارا یہ سرمایۂ صحافت اس پیری میں بھی جوانوں سے بڑھ کر کام کررہا ہے۔ اقبال خواہ مخواہ صرف نوجوانوں سے ستاروں پر کمند ڈالنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے، نہ ہوئے ہمارے الطاف حسن قریشی ان کے زمانے میں ، ورنہ وہ نوجوانوں کے علاوہ قریشی صاحب کی ’’جوانی‘‘ دیکھ کر اپنے مصرعے میں کچھ رد وبدل کرلیتے۔
مبالغہ آرائیاں!
چلئے اب آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ صرف تقریب تھی یا کھابہ گری کا کوئی پروگرام تھا۔ تقریب تو خیر قریشی صاحب کی نئی کتاب ’’میں نے آئین بنتے دیکھا‘‘کی تھی، جس کے شریک مصنف پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ تھے، جن کے ساتھ کار میں یہاں تک پہنچا تھا اور پھر واپسی کا سفر بھی انہی کی معیت میں کیا۔ عالم فاضل ہونے کے علاوہ وہ اتنے اچھے ہم سفر نکلے کہ سارے رستےان سے مزے کی گپ شپ ہوتی رہی، سو میں نے انہیں اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے، اب صرف ان کی طرف سے قبول قبول قبول کہنا باقی ہے۔ بہرحال کتاب کے عنوان سے یہ نہ سمجھیں کہ یہ کتاب 1973ء کے آئین کے حوالے سے ہے، اس کی وسعت کا اندازہ اس کے صرف چند ابواب کے عنوانا ت سے لگا لیں، مثلاً ابتدائی قانونی ڈھانچہ اور خود ساختہ تنازعات سے بات شروع ہوتی ہے اور قیام پاکستان تک کی کہانی بیان کی جاتی ہے، میں کون ہوتا ہوں اس کتاب کا تجزیہ کرنے والا، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جسے سیاسیات سے رتی بھر بھی دلچسپی نہ ہو، آسان اور عام فہم پیرائے میں لکھی گئی یہ کتاب بآسانی پڑھ لے گا اور ہضم بھی کرلے گا۔ قریشی صاحب جدوجہد آزادی سے آزادی کے حصول تک کی تمام تر جزئیات سے واقف ہیں اور انہوں نے ہمیں بتایا ہے کہ قائد اعظمؒ ایساشخص جو متحدہ ہندوستان کا بہت بڑا علمبردار تھا اسے کون سے واقعات و حالات ملک کی تقسیم کی طرف لے کر آئے، اس خار زار رستے کو کیسے طے کیاگیا، مشکلات کے کوہ گراں کیسے پاش پاش ہوئے، یہ سب کچھ اتنی آسانی سے الطاف حسن قریشی ہی بتا سکتے تھے کہ آزادی کی اس جدوجہد کے بہت سے دورانیے کے وہ چشم دید گواہ ہیں۔
اب میری دو خواہشات ہیں ایک یہ کہ یہ کتاب زیادہ سے زیادہ نوجوانوں تک پہنچائی جائے اور نوجوانوں کو ڈسکائونٹ کے ساتھ یہ کتاب دی جائے۔ دوسری خواہش یہ ہے کہ قریشی صاحب اپنی آپ بیتی ضرور لکھیں۔ پاکستان ہجرت کرنے کے بعد انہوں نے جتنی غربت دیکھی اور سال ہا سال سائیکل پر سفر کرتے رہے ، اردو ڈائجسٹ کا آغاز کن حالات میں کیا، صاحب عزت وہ پہلے ہی سے تھے، صاحب ثروت ہونے کا سفر کیسے کیا۔ا ور ایک بات میرے کان میں بتا دیں کہ ان کی جوانی کا راز کیا ہے، یقین کریں میں یہ راز اپنے سینے میں محفوظ رکھوں گا۔ میں نے کالم کے آغاز میں ایک اور پروگرام کا ذکر بھی کیا تھااور یہ کھابہ گیری کا پروگرام تھا، اس کا انتظام و انصرام اور وغیرہ وغیرہ کی ذمہ داری پروفیسر امان اللہ کی تھی، جب کتاب پر اظہار خیال قدرے لمبا ہوا تو ایک کونے سے آواز آئی ’’کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے‘‘،کھانے کی خوشبو بھی مشامِ جاں کو معطر کئے جا رہی تھی۔سو کسی کھابہ گیر کی دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی دعا قبول ہوئی اور پھر لاہوریئے تھے اور انواع و اقسام کے کھانے تھے۔ بس آخر میں صرف اتنا عرض کروں گا اور منتظمین سے کروں گا کہ آئندہ اگر ہو بہو اس قسم کی تقریب ہو تو براہ کرم سب سے پہلے مجھے مطلع کیا جائے۔
اور اب آخر میں عرفان صدیقی کی تازہ غزل:
جوئے شیر لانے کی ہمتیں نہیں ہوتیں
ورنہ کون سے دل میں خواہشیں نہیں ہوتیں
ہم تہی نصیبوں کی زیست کے مقدر میں
راستے تو ہوتے ہیں منزلیں نہیں ہوتیں
کوئی گل نہیں کھلتا پھول کی رتوں میں بھی
بارشوں کے موسم میں بارشیں نہیں ہوتیں
شہر کے گلی کوچے سوئے سوئے رہتے ہیں
آہٹیں نہیں آتیں، دستکیں نہیں ہوتیں
کوئی اس کو سمجھائے، اپنا گھر تو اپنا ہے
اپنا گھر جلانے کی سازشیں نہیں ہوتیں
دوستی سہی ان سے، احتیاط لازم ہے
لوگ جن کے ماتھوں پر سلوٹیں نہیں ہوتیں
کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے رشتہ و تعلق میں
جب کئی کئی دن تک رنجشیں نہیں ہوتیں
جائو گے کہاں آخر تم میری قلم رو سے
دل کی سلطنت کی کچھ سرحدیں نہیں ہوتیں
روشنی کی چاہت میں خود ہی جلتے رہتے ہیں
جگنوئوں کے ہاتھوں میں مشعلیں نہیں ہوتیں
ہاتھ خود بناتے ہیں زائچے مقدر کے
ہاتھ کی لکیروں میں قسمتیں نہیں ہوتیں
نفس مطمنۂ بھی بے کنار نعمت ہے
محض دولتیں عرفاں دولتیں نہیں ہوتیں