سینئیر صحافی حامد میر کا اسرائیل کو ختم کرنے کا فارمولا

معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ اگر کسی کو کوئی غلط فہمی تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران پر حملہ امریکی صدر کی آشیرباد کے بغیر کیا ہے تو وہ اب دور ہو جانی چاہئے۔ انکا کہنا ہے کہ جب 13 جون 2025 کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اسے امریکہ کی مکمل تائید حاصل تھی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ اسرائیلی حملے میں انکی تائید شامل نہیں تھی محض ایک دھوکہ تھا۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کا خیال تھا کہ وہ چند دن کے اندر اندر ایران کی فوجی قیادت کا خاتمہ کر دینگے اور ایران کے عوام سڑکوں پر آکر حکومت کا خاتمہ کر دینگے۔ نیتن یاہو نے ایران میں اپنے مضبوط انٹیلی جینس نیٹ ورک کی مدد سے ایرانی فوجی قیادت اور ایٹمی سائنس دانوں کو تو آسانی سے نشانہ بنا لیا لیکن ان کے سیاسی اندازے غلط ثابت ہوئے۔ ایرانی عوام سڑکوں پر ضرور نکلے لیکن ’’مرگ بر اسرائیل‘‘ کا نعرہ بلند کرنے کیلئے۔ ایرانی افواج نے اب تک ناصرف اسرائیل کیخلاف بھرپور مزاحمت کی ہے بلکہ اس کے طاقت ور میزائلوں نے اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم کے ناقابل شکست ہونے کے تصور کو بھی چکنا چور کر دیا ہے۔ جب ایرانی میزائل تل ابیب میں گرنا شروع ہوئے تو ایک طرف تمام مسلم ممالک نے ایران کی حمایت شروع کردی تو دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ غصے میں آگ بگولا ہوگئے۔ ٹرمپ کینیڈا میں جی سیون ممالک کا اجلاس ادھورا چھوڑ کر واپس واشنگٹن آ گئے اور انہوں نے ایران کو دھمکی آمیز بیانات دینے شروع کر دیئے۔ ان بیانات نے ٹرمپ کی امن پسندی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔

حامد میر کے بقول سچ تو یہ ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو قتل کی دھمکی دیکر اور غیر مشروط طور پر سرنڈر کرنے جیسا جارحانہ مطالبہ کرنے کے بعد ٹرمپ عملی طور پر اس جنگ میں کود چکے ہیں۔ دوسری طرف چین نے ٹرمپ کے بیان کو جنگ کی آگ پر مزید پٹرول چھڑکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ایران کیخلاف ٹرمپ کے جارحانہ بیانات کو امریکی کانگریس کے کئی ارکان نے مسترد کر دیا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کیخلاف اعلان جنگ کے فیصلے کا اختیار امریکی صدر کے پاس نہیں کانگریس کے پاس ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور یورپ میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کافی غیر مقبول ہیں لیکن زیادہ تر مغربی حکومتیں ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے بعد اقوام متحدہ اور تمام عالمی قوانین ایک مذاق بن چکے ہیں۔ غزہ میں 55 ہزار فلسطینیوں کو قتل کرنے والا نیتن یاہو اقوام متحدہ کی طرف سے سیز فائر کی قراردادوں کو بڑے متکبرانہ انداز میں مسترد کر چکا ہے۔ فی الوقت اسرائیل صرف ایران پر نہیں بلکہ اقوام متحدہ پر بھی حملہ آور ہے۔ یہ وہی اقوام متحدہ ہے جس کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 181کے ذریعے اسرائیل وجود میں آیا تھا۔ آج وہی اسرائیل اقوام متحدہ کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے ذرا سوچیے! اگر اقوام متحدہ مکمل طور پر غیر موثر ہو گیا تو پھر یہ دنیا کیسے چلے گی؟ عملی طور پر آج کی دنیا میں جنگل کا قانون چل رہا ہے جس کے پاس طاقت ہے صرف اسی کی مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر کے کمزور ممالک کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔

اسرائیل جس راستے پر چل رہا ہے یہ دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اسکی بھینس‘‘ کے قانون کی سربلندی کا راستہ ہے۔ یہ قانون اقوام متحدہ کے چارٹر کی نفی ہے لہٰذا دنیا کو اُٹھنا ہو گا اقوام متحدہ کو بچانا ہو گا ورنہ دنیا کے ہر خطے میں کوئی نہ کوئی اسرائیل کی طرح اپنی ہوسِ ملک گیری کو قانون بنا کر نافذ کر دیگا۔ اقوام متحدہ کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے ایران کیخلاف اسرائیلی جارحیت کے مخالف ممالک مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ قرارداد لائیں کہ اسرائیل اسی جنرل اسمبلی کی قرار داد 181کے تحت قائم ہوا لیکن اسرائیل اس قرارداد پر عملدرآمد نہیں کر رہا، لہٰذا یہ قرارداد واپس لی جائے۔

حامد میر کے بقول سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ اپنی قرارداد واپس لے سکتی ہے؟ جی ہاں! ایسی مثالیں موجود ہیں 10نومبر 1975ء کو جنرل اسمبلی نے قرارداد 3379 کے ذریعے صیہونیت کو نسل پرستی کی ایک شکل قرار دیا۔ اس قرارداد کے حق میں 72 ووٹ تھے جبکہ اس کی مخالفت میں 35 ووٹ آئے۔ 32 ممالک نے ووٹ نہیں دیا تھا۔ اس سے پہلے 1973ء میں جنرل اسمبلی قرارداد 3151 کے تحت نسل پرستی کی مذمت کر چکی تھی۔ 1991ء میں میڈرڈ میں اسرائیل اور فلسطینی قیادت میں مذاکرات کی کوشش شروع ہوئی تو اسرائیل نے شرط رکھی کہ قرارداد 3379کو واپس لیا جائے۔ جنرل اسمبلی نے یہ قرارداد واپس لے لی اور میڈرڈ میں فلسطینی وفد کی اسرائیل سے ملاقات ہوئی جس میں اردن، لبنان اور شام کے نمائندے بھی شامل ہوئے۔

ٹرمپ سے ملاقات پاکستان اور عاصم منیر کیلیے کتنی مفید رہی؟

میڈرڈ کانفرنس کے بعد اوسلو مذاکرات شروع ہوئے اور ایک کمزور سی فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ نکلا لیکن قرارداد 181پر عملدرآمد نہ ہوا کیونکہ اس قرارداد میں جو علاقے فلسطینی ریاست میں شامل کئے گئے ان میں سے کئی علاقوں پر بدستور اسرائیل کا قبضہ ہے۔ 181 کے تحت مسجد اقصیٰ اقوام متحدہ کے کنٹرول میں ہونی چاہئے لیکن مسجد اقصیٰ پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہے اگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد 3379 واپس ہو سکتی ہے تو 181 بھی واپس ہو سکتی ہے۔ 3379 کو 72ممالک نے ووٹ دیا تھا۔ 181 کو صرف 33 ممالک نے ووٹ دیا تھا جس میں ایک بھی عرب اور مسلم ملک شامل نہ تھا۔ 24 اکتوبر 1947ء کو قرارداد 181 منظور ہوئی تو اس کا مقصد دو ریاستوں کا قیام تھا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ تب اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد صرف 56 تھی جس میں سے 33 نے حمایت اور 13 نے مخالفت کی تھی جبکہ 10 ممالک نے ووٹ نہیں دیا تھا۔ آج اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد 193 ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے ماہرین کی ایک بڑی تعداد اس رائے سے اتفاق کرتی ہے کہ قرارداد 181 دراصل اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے لہٰذا اس قرارداد کو واپس لیکر مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے اقوام متحدہ میں دوبارہ بحث کی جائے اور مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے کوئی نئی قرارداد لائی جائے۔ یاد رکھئے کہ 181 کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی مسترد کر دیا تھا اور 8 دسمبر 1947ء کو امریکی صدر ٹرومین کے نام لکھے گئے ایک خط میں اس قرارداد کو یو این چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔  اقوام متحدہ کو موثر بنانے کیلئے 181کو واپس لینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر اوآئی سی یہ کام شروع کرے تو صرف افریقہ اور مشرق وسطیٰ نہیں بلکہ لاطینی امریکہ کے کئی ممالک بھی او آئی سی کی حمایت کر سکتے ہیں اور دنیا سے جنگل کا قانون ختم کیا جا سکتا ہے۔

Back to top button