حکومت کےصاف انکار کے باوجودPTIڈیل کی متلاشی کیوں؟

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کو احتجاج کی کال کے بعد سے اقتدار کے ایوانوں میں مختلف قسم کی افواہوں کا بازار گرم ہے۔ اب جبکہ اسلام آباد کی جانب مارچ کی کال پر عملدرآمد میں 2 روز باقی رہ گئے ہیں تو ایسے میں حکومت کو خاطر میں نہ لانے والی پی ٹی آئی اب اسی ناجائز حکومت کے ساتھ باضابطہ مذاکرت کے لیے تیار نظر آ رہی ہے۔ تاہم دوسری جانب حکومت اور مقتدر حلقے مذاکرات سے انکاری دکھائی دیتے ہیں۔

تاہم پی ٹی آئی حلقوں کے مطابق تحریک انصاف نے حکومت سے رابطوں اور ملاقاتوں کا آغاز کر دیا ہے لیکن حکومت نے رابطہ کاروں پر واضح کر دیا ہے کہ وہ قطعا کوئی بھی غیر آئینی مطالبات تسلیم نہیں کرینگے اور نہ ہی بانی پی ٹی آئی عمران خان کو کسی قسم کا این آر او دیا جائے گا۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کارسہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پہلے تو حکومت کوشش کرے گی کچھ بھی نہ دیا جائے اور احتجاج ٹال دیا جائے۔ سہیل واڑئچ کے مطابق میرے خیال میں رہائی والے مطالبے میں کسی حد تک گنجائش موجو دہے تاہم عمران خان کی رہائی تب ہی ممکن ہے جب وہ خاموشی سے بیٹھ جائیں گے اور ہمیشہ کیلئے احتجاجی سیاست سے تائب ہوں گے اور عمران خان یقین دہانی کروائیں گے کہ ان کی پارٹی صرف پارلیمانی سیاست کرے گی اور عمران خان دھرنے اور احتجاجوں کی سیاست نہیں کرینگے۔

تاہم اس کا امکان کم ہے کہ عمران خان اتنی یقین دہانیاں کروائیں گے اور ان پر قائم بھی رہینگے۔ تاہم سہیل وارئچ کے بقول اس حوالے سے کسی بھی بریک تھرو کیلئے ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ الیکشن دھاندلی پر ایک پارلیمانی یا جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائےتاکہ پی ٹی آئی کا یہ گلہ بھی ختم ہوجائے کہ ان کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے اور انھیں ایک امید بھی پیدا ہوجائے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔ سہیل واڑئچ کے مطابق ماضی میں عمران خان ہر طرح کے کمپرومائز کرتے رہے ہیں ۔ ان کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ وہ ہر طرح کا کمپرومائز کرلیتے ہیں۔ تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے کئے گئے وعدوں اور دعوؤں پر قائم نہیں رہتے جس وجہ سے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔

 

عمران خان کےلیےایک جانب کنواں اور دوسری جانب کھائی کیوں؟

تاہم دوسری جانب سینئر صحافی انصار عباسی کادعویٰ ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان 2 ملاقاتیں ہو چکی ہیں، جس کے بعد باقاعدہ مذاکرات کا آغاز زیر غور ہے۔ اگر فریقین مذاکرات کی راہ پر آگے بڑھتے ہیں تو موجودہ صورتحال میں یہ ایک اہم پیشرفت ہوگی۔انصار عباسی کے مطابق مذاکرات کے کامیاب آغاز کے ساتھ ہی اس بات کا امکان ہے کہ پی ٹی آئی 24 نومبر کے احتجاج سے پیچھے ہٹ جائے گی۔

انصار عباسی کے مطابق باقاعدہ مذاکرات سے قبل تحریک انصاف کی قیادت عمران خان جبکہ حکومتی اہلکار وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ سے منظوری کے بعد بات آگے بڑھائیں گے۔انصار عباسی کا مزید کہنا ہے کہ مذاکرات کے معاملے میں جیل میں قید عمران خان حکومتی حلقوں سے زیادہ باخبر ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کو مکمل علم ہے کہ ان کی پارٹی میں سے کون کس سے رابطے میں ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین اعلیٰ سطح پر ہونے والے ان رابطوں کے آغاز میں ہوئی پہلی میٹنگ میں ہر 2 جانب سے فقط ایک ایک فرد شریک تھا، جبکہ دوسری میٹنگ میں 3 افراد شامل تھے۔انصار عباسی کے مطابق ایک ایسے موقع پر جب کسی بھی وقت مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اس بات کا بخوبی ادراک رکھتی ہے کہ ان کی جانب سے پیش کیے جانے والے مطالبات فوری طور پر تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔

تاہم سینئر اینکر پرسن اورتجزیہ کارشہزاد اقبال کے بقول تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی احتجاج کی فائنل کال پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ باہر نکل آئیں گے اور وہ اپنے تمام مطالبات منوانے میں کامیاب ہوجائیں گے،تجزیہ کارشہزاد اقبال کے مطابق دونوں اطراف سے بہت بڑے بڑے دعوےکئے جا رہے ہیں تاہم گزشتہ دوتین روز سے جو سرگرمیاں نظر آرہی ہیں اس سے واضح ہے کہ دونوں فریق چاہتے ہیں کہ احتجاج نہ ہو اور خاموشی سے معاملات طے پا جائیں تاہم اگر بالفرض حکومت عمران خان کو رہا کرنے پر راضی ہوتی ہے تو پھرعمران خان کو خاموش رہنا پڑے گا موجودہ سیاسی حالات میں جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کی کامیابی نا ممکن ہے ۔

 

Back to top button