پاکستان میں بٹ کوائن لایاجائے گایاکرپٹی کرنسی ماڈل؟

قوانین کی عدم دستیابی کے باوجود پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا رجحان تیزی سے بڑھتا نظر آتا ہے۔ پاکستان اس وقت کرپٹو کرنسی کی آٹھویں بڑی مارکیٹ اور پاکستانی شہری تقریباً 25 ارب ڈالرز کی کرپٹو کرنسی کے مالک بن چکےہیں،  یہ اعداد و شمار اس بات کے غماز ہیں کہ حکومتی پالیسی سازی میں سست روی کے باوجود عوام نے اس نئی مالیاتی دنیا کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تاہم پاکستانیوں کی دلچسپی کے باوجود حکومت اس وقت ڈیجیٹل کرنسی کے دو مختلف ماڈلز کے حوالے سے تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ حکام اب تک یہ فیصلہ کرنے میں ناکام ہیں کہ مستقبل میں انھوں نے ڈیجیٹل اثاثوں میں سرمایہ کاری کیلئے بٹ کوائن کو اپنانا ہے یا ایتھریم ماڈل پر معاملات کو آگے بڑھانا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کرپٹو کرنسی کے حوالے سے فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک طرف بٹ کوائن مائننگ ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے، تو دوسری طرف ایتھریم جیسے ماڈلز اثاثوں کی ٹوکنائزیشن اور ڈیجیٹل معیشت کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کرپٹو کرنسی کے حوالے سے پاکستان کے پاس بے شمار مواقع موجود ہیں۔کرپٹو کرنسی ملک کو اربوں ڈالر کے نئے ذخائر فراہم کرنے کے علاوہ نوجوان نسل کو عالمی ڈیجیٹل اکانومی کا حصہ بنانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب حکومت بجلی کے نرخوں، سرمایہ کاری کے قوانین اور عملی ایس او پیز کو بروقت اور واضح انداز میں لاگو کرے۔اگر حکومت نے بروقت فیصلے کیے تو کرپٹو کرنسی پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔

معاشی ماہرین کے بقول صرف چند سال پہلے تک جس کرنسی کو محض ایک ’’ڈیجیٹل تجربہ‘‘ سمجھا جاتا تھا، آج وہ صرف سرمایہ کاری کا ایک ذریعہ ہی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی ڈھانچے کا ایک اہم جزو بنتی دکھائی دیتی ہے۔ ماہرین کے بقول اس وقت دنیا میں کرپٹو یا ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے بٹ کوائن اور ایتھریم دو ماڈل چل رہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کس کرپٹو ماڈل کو اختیار کرے؟

دبئی میں بلاک چین اور پرائیویٹ فنڈز کے ساتھ کام کرنے والے ماہر محمد ہارون حکومت کو بٹ کوائن اور ایتھریم دونوں ماڈلز کو ساتھ لے کر چلنے پر زور دیتے ہیں۔ ہارون کا کہنا ہے کہ کرپٹو مائننگ کے لیے حکومت کو بجلی سستی کرنی پڑے گی، ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ بٹ کوائن ماڈل فائدہ مند ہے۔ لیکن یہ انرجی بیکڈ پروجیکٹ ہے۔ حکومت نےکرپٹو کرنسی مائننگ کے لیے دو ہزار میگا واٹ بجلی مختص کر رکھی ہے لیکن کرپٹو مائننگ اسی وقت فائدہ مند ہو سکتی ہے، اگر بجلی پانچ سینٹس پر ملے۔ بجلی کا زیادہ سے زیادہ ریٹ آٹھ سینٹس ہو سکتا ہے، لیکن حکومت یہ ریٹ بھی دینے کو تیار نہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آٹھ سینٹس سے مہنگی بجلی پر کرپٹو مائننگ وارے میں نہیں رہتی۔ اس سے اوپر ریٹ پر مائننگ نہیں ہو سکتی اور سرمایہ سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک منتقل ہو سکتا ہے۔

محمد ہاورن کے بقول اگر حکومت کرپٹو مائننگ کے لیے بجلی کا ٹیرف کم کر دے تو پاکستان سالانہ اربوں ڈالرز کے بٹ کوائن ذخائر حاصل کر سکتا ہے۔ حکومت کو دو ہزار میگا واٹ بجلی ٹیرف کے عوض سالانہ کم از کم تقریبا پانچ سو بٹ کوائنز مل سکتے ہیں۔ اس وقت ایک بٹ کوائن تقریبا ایک لاکھ آٹھ ہزار ڈالر کا ہے جو کہ دس سال بعد کم و بیش 10 لاکھ ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے اس طرح پاکستان کو پانچ ارب ڈالرز سے زیادہ کے بٹ کوائنز مل سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کے پاس تقریباً 20 ہزار میگا واٹ بجلی سرپلس موجود ہے۔ اگر ساری سرپلس بجلی کرپٹو مائننگ کو دے دی جائے تو تقریبا 50 ارب ڈالرز سے زیادہ کے ڈالر ذخائر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دو ہزار میگا واٹ بجلی استعمال کرنے کے لیے تقریباً ساڑھے تین لاکھ مائننگ مشینیں درکار ہونگی۔ ایک مشین تقریباً 2200 ڈالر کی آتی ہے۔ اس طرح تقریباً ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری پاکستان آ سکتی ہے، لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے اگر سٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی پر بروقت قانون سازی مکمل کرے اور اس میں سرمایہ کاری کے طریقہ کار کو واضح کرے۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ بٹ کوائن کے علاوہ دوسرے ڈیجیٹل کرنسی ماڈل ایتھریم کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ لچک دار اور جدید ٹیکنالوجی کرنسی ہے۔ اس میں کرنسی ٹریڈ کے ساتھ اثاثوں کی ٹوکنائزیشن کی جا سکتی ہے۔  ایتھریم نوجوان نسل کو ڈیجیٹل اثاثوں جیسے پینٹنگز، رئیل اسٹیٹ یا دیگر انویسٹمنٹس کے حصے خریدنے کا موقع دیتا ہے اس طرح یہ ماڈل ملکی معیشت کے لیے ایک نیا باب ثابت ہو سکتا ہے۔جبکہ اس پر بجلی کا خرچ بھی بٹ کوائن کی نسبت کم آتا ہے۔ اگر کوئی پاکستانی شخص پکاسو کی پینٹنگ نہیں خرید سکتا تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق پکاسو پینٹنگ ایتھریم ٹوکن خرید کر منافع کما سکتا ہے۔‘انہوں نے دنیا کی مختلف کمپنیوں اور بینکوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سٹیٹ بینک بھی ایتھریم ماڈل کو باآسانی اپنا سکتا ہے۔ یہ ایک اچھوتا تصور ہے جو آج کل کی نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ان حالات میں کسی ایک کرپٹو ماڈل کی طرف جانے کی بجائے دونوں ماڈلز کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔‘

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!