کیا عمران ، جنرل باجوہ کے خلاف وعدہ معاف گواہ ہوں گے؟

سینئر سیاسی تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں عمران خان جھوٹ بولنا چھوڑ دیں تو اُن کی سیاسی موت آ جائے گی ۔ان کی سیاسی ، سماجی ، معاشرتی اور نجی زندگی کا انحصار مکمل جھوٹ پر ہے ۔ حیف ہے کہ ان کی مقبولیت کی وجہ جھوٹ کی مرہون منت ہے۔
اپنے ایک کالم میں حفیظ الله نیازی کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ صاحب کی جامع انکوائری انتہائی ضروری ہے ،یہ انکوائری اُن کے آخری سال تک محدود نہیں رہنی چاہیے ۔ 29 نومبر 2016 سے 29 نومبر 2022 تک کا احاطہ کئے بغیر اُن کے مبینہ جرائم کا تعین نہ کرنا، خود غرضی اور دوغلاپن اور سعی لاحاصل ہوگا ۔ اِس کے ساتھ ہی جنرل باجوہ کی ادارے کے اندر تجاوزات اور ڈسپلن کی بے توقیری کی انکوائری بھی لازمی کرنی ہوگی۔ مزید برآں آئین و قانون کی بے حُرمتی اور ادارے سے کِھلواڑ میں ملوث جنرل باجوہ کے شراکت داروں کا تعین بھی اَزحد ضروری ہے۔ اگر جنرل باجوہ کو عمران خان جیسا مہرہ اور سپریم کورٹ جیسا گھوڑا دستیاب نہ ہوتا تو اس بہیمانہ طریقہ سے آئین اور قانون پاش پاش نہ ہو پاتے۔ 2014 سے آئین اور قانون کو جوتے کی نوک پررکھا گیا۔ میڈیا کو چاروں شانے چِت کرکے سینے پُھلائے گئے۔ 2014 سے عمران خان 8 سال قدم بہ قدم شریک جُرم رہے ، لُوٹا مال غنیمت سمیٹنے والا اکلوتا تھا۔ عمران خان کا 5 برسوں تک چشم پوشی رکھنا اور آخری سال کے مبینہ جُرائم پر انکوائری کے لئے تڑپ ،محض منافقت اور دوغلاپن ہوگا ۔
حفیظ الله نیازی کہتے ہیں کہ پونے چار سال طاقت ، مال و دولت دونوں ہاتھ سے سمیٹ کر عمران خان اپنا حقِ دعویٰ ختم کر چکے ہیں۔اگر عمران خان صدق دِل سے جنرل باجوہ کے خلاف انکوائری چاہتے ہیں تو پہلے انہیں خود سچ اُگلنا ہو گا۔ عمران خان کی گواہی اہم اس لئے ہے کہ ان کی ذات مبارکہ شریک جُرم بھی ہے اور عینی شاہد بھی ہے۔ عمران خان کو وعدہ معاف گواہ کی سہولت بھی میسر رہے گی۔ اگر عمران سپریم کورٹ میں رضاکارانہ طور پر 8 سال جوڑ توڑ پر بیان درج کرؤائیں تو تاریخ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ کاش وہ سچ بول دیں تو نہ صرف ان مقبولیت کو چار چاند لگیں گے بلکہ یہ ان کے سفر آخرت کا بہترین زادِراہ بھی ہو گا ۔
حفیظ الله نیازی کے مطابق ’’جیل بھرو تحریک‘‘ پر عمران خان کا خطاب، جھوٹ کا پلندہ تھا۔ سوشل میڈیا عمران کے ماضی کے بیانات اُجاگر کر کے منہ چڑھاتا رہے گا کہ ان کا ماضی مزاحیہ پروگرام ہی تو ہے۔ جناب کے ماضی میں دیے گئے متضاد بیانات آج چار سو پھیلے ہیں ۔پرویزالٰہی کل تک سب سے بڑا ڈاکو، آج تحریک انصاف کی مسند صدارت پر بیٹھا ہے۔ میری ایماء پر جاوید ہاشمی کے لئے یہ پوزیشن وجود میں آئی تھی۔ تب سے خالی ہے۔ بالآخرآج پرویز الٰہی کے حصے میں آئی۔کیا حسین مطابقت ہے، کہاں گنگو پرویز صاحب اور کہاں راجہ جاوید ہاشمی۔
حفیظ الله نیازی کہتے ہیں کہ 25 مئی ،26 نومبر کے لانگ مارچ ، KP اور پنجاب اسمبلیوں کی تحلیل کی بھرپور ناکامی کے بعد جیل بھرو تحریک ایک مدافعانہ عمل ہے جو عمران کی مایوس سیاست کا آئینہ دار ہے۔ سپریم کورٹ کا 9 رُکنی بینچ KP اور پنجاب میں الیکشن پر سماعت کرے گا ۔ حیرت ہے کہ اس میں دو انتہائی سینئر ججز موجود نہیں ہیں۔ احتیاط سے بینچ میں چند ایسے جج شامل کیے گئے ہیں جن پر قسمت کی دیوی عرصہ سے مہربان ہے ۔جب سے مخصوص ججوں نے سپریم کورٹ میں قدم رَنجا فرمایا تب سے اپنے سینئرز کی موجودگی کے باوجود ہمیشہ ترجیحی بنیاد پر ہر سیاسی ، آئینی کیس میں ان کی فوقیت رہی۔ ایسے ججوں کی خدمات پر اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد زندہ مورخ بہت کچھ لکھنے کو تڑپ رہے ہیں۔ اس وقت ہر ادارہ اور فرد اپنے اپنے مفادات اور خواہشات میں اندھا ہو چکا ہے قطع نظر اس کے کون سا ادارہ کون سے ادارے کی پہلے حکم عدولی کرتا ہے ،اس وقت ریاست بمقابلہ ریاست ہے، اس قسم کا ٹکراؤ پہلا وطنی تجربہ ہی ہوگا۔