عمران کے انقلابی جیل بھرو تحریک میں کاغذی نکلے

حکومت اور اداروں کیخلاف عمران خان کی تمام تدابیراور ہتھکنڈے لگاتار ناکام ہورہے ہیں۔ اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعدسیاسی تنہائی کے شکار عمران خان کی شروع کردہ جیل بھرو تحریک کا تسلسل تیسرےروز اس وقت ٹوٹ گیا۔ جب ایک طرف پشاور میں عمرانڈوز نے گرفتاریاں دینے سے انکار کر دیا وہیں ایک روز قبل گرفتار ہونے والے شاہ محمود قریشی کا خانوادہ رہائی کے لئے درخواستیں لئے دست سوال دراز کردیا۔ نہ صرف شاہ محمود قریشی بلکہ دیگر پارٹی رہنماؤں نے بھی ضمانتوں کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔ جس پر سیاسی تجزیہ کار سوال اٹھا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی قیادت بتائے کیا”جیل بھرو تحریک” جیل کے دروازے کو ہاتھ لگانے کانام ہے۔ حالانکہ عمران خان کا تودعویٰ تھا کہ لاہور میں جیل بھرو تحریک کے لئے زبردست تیاری کی گئی ہے جہاں بارہ ہزار افراد کی فہرست ہونے کا دعویٰ کیا جارہا تھا جو رضاکارانہ طور پر زندانوں کا رخ کرینگے تاہم جب 22 فروری کی شام کو حراست میں لئے گئے افراد کا شمار ہوا تو کل ملا کر 81 جانثار نکلے ،اس چلن سےظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف محض کاغذی جماعت ہے یا ایسا کلب ہے جس میں سیر و تفریح اور رنگا رنگی کے مو اقع ہوں تو اس کے ارکان خوب رونق لگاسکتے ہیں جہاں مقابلے کا اذن ہوا وہ اپنا منہ ہی موڑ لیتے ہیں۔ دوسری طرف پشاور پولیس نے بتایا کہ گرفتار شدگان کی تعداد صفر ہے وہاں کوئی شخص گرفتاری دینے کے لئے تیار نہیں تھا اور تحریک انصاف کی قیادت یہ اعلان کرتی رہی ہےکہ جیل بھرو تحریک ختم کردی گئی ہے۔
دوسری جانب مریم نواز شریف نے ایک ایک کرکے ان کرداروں کی نشاندہی کردی ہے جنھوں نے ملک عزیز کو خرابیوں اور بربادیوں کے سپرد کیا ہے ، مریم نواز شریف اور ان کے قبیل کا کوئی شخص کسی معاملے پراعتراض کرے تو اس پر غور کرنا چاہئے اس کی شکایت کے ازالے پر توجہ دینی چاہئے،مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان نے اپنے تمام گھوڑے دوڑانے اور ہر سمت سے مایوسی ہونے کے بعد اب چوہدری پرویز الٰہی پر تکیہ کرلیا ہے کہ وہ انہیں ’’روٹھے یار‘‘ سے ملوا سکیں گے جنہیں یاروں کو رام کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی جست کے بعد تحریک کا داخلی منظر نامہ کافی ہلچل اور اضطراب دکھائے گا آخر کار اس کے چیئرمین کا منصب وہی سنبھالیں گے۔یال رہے کہ جیل بھرو تحریک بنیادی طور پر احتجاج کا ایک طریقہ ہے جس میں لوگ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے رضاکارانہ طور پر گرفتاری دیتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ جیلوں میں جمع ہو جائیں کہ ریاست کے لیے ان کا انتظام سنبھالنا مشکل ہو جائے۔ لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ماضی میں عملی طور پر جیلیں بھرنے کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔
سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’برصغیر میں جیل بھرو تحریک کی روایت موجود بھی ہے اور یہ تحریکیں چلتی بھی رہی ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ ریاست کے بنائے قوانین کی خلاف ورزی کریں اور ایسا جرم کریں جس سے قانون کی نظر میں آپ کی گرفتاری لازمی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ تھانے یا جیل جائیں اور کہیں کہ مجھے جیل جانا ہے اور پولیس آپ کو جیل بھیج دے گی۔برصغیر کی تاریخ میں جیل بھرو تحریک اور اس کے ساتھ ہی سول نافرمانی تحریک کا موجد انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما موہن داس گاندھی کو سمجھا جاتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں اس تحریک کو ’ہندوستان چھوڑو تحریک‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔سیاسی امور کے ماہر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ ’جیل بھرو تحریک کی ایک تاریخ ہے کہ جب یہاں پر آزادی کی تحریک چل رہی تھی تو مہاتما گاندھی کی قیادت میں یہ تحریک شروع کی گئی تھی جس کا مقصد انگریزوں کو ہندوستان سے واپس بھیجنا تھا۔ اس تحریک سے برطانیہ واپس نہیں گیا تھا اور نہ ہی ان کی حکومت کو کوئی فرق پڑا تھا۔ تاہم اس تحریک میں آزادی کے لیے قومی سطح پر آزادی کا جذبہ پیدا کرنے میں مدد ملی ہے۔
پاکستان میں باضابطہ طور پر ایک ہی جیل بھرو تحریک کا آثار ملتے ہیں جو ضیاءالحق کے خلاف بننے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی یعنی تحریک بحالی جمہوریت نے شروع کی تھی۔اس بحالی جمہوریت تحریک کے بنیادی مطالبات میں ضیاء الحق کا استعفیٰ، آئین کی بحالی، سیاسی اسیروں کی رہائی اور فوجی عدالتوں کے ذریعے دی گئی سزاوں کی منسوخی شامل تھی۔ ایم آر ڈی نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا تو بیگم نصرت بھٹو نے لاہور میں گرفتاری پیش کی۔ انہیں بعد ازاں کراچی منتقل کر دیا گیا جبکہ بے نظیر بھٹو کے پنجاب میں داخلے پرپابندی عائد کر دی گئی۔
تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ ’جنگ آزادی اور سیاسی تحریکوں میں یہی ایک فرق ہے کہ ایسی تحریکیں ملک کی آزادی کے لیے کامیاب نہ بھی ہوں تب بھی لوگوں میں بیداری اور شعور پیدا کر دیتی ہیں، لیکن سیاسی تحریکوں میں جیل بھرو تحریک جیسے اقدامات کو کامیابی نہیں ملتی۔ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی تحریکوں میں اجتماعی طور پر ریاستی قوانین کی خلاف ورزی کرنا پڑتی ہے تاکہ ریاست آپ کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور ہو جائے۔ اگر ریاست ایکشن نہیں لیتی تو اس کی رٹ ختم ہو جاتی ہے جیسے بھٹو دور میں ہوا کہ رٹ ختم ہوئی اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ اور اگر ایکشن لیتی ہے تو پھر اسے بڑے پیمانے پر لوگوں کو گرفتار کرنا پڑتا ہے۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کی جیل بھرو تحریک کامیاب ہو گی یا ماضی کی طرح ناکامی سے دوچار ہو گی؟ دیکھا جائے تو یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عمران خان کی جانب سے ایسی کسی تحریک کال دی گئی ہو۔ اکتوبر 2022 میں میانوالی میں ایک جلسے سے خطاب میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی جیل بھرو تحریک کال دیں گے۔اس سے قبل 2014 کے دھرنے کے ابتدائی دنوں میں عمران خان نے سٹیج پر کھڑے ہوکر بجلی کا بل جلاتے ہوئے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ بجلی اور گیس کے بل نہ دیں اور ٹیکس بھی نہ دیں جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستان حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجیں۔ اس اعلان کے نتیجے میں عوام کی جانب سے ردعمل نہ ہونے کے برابر تھا، جبکہ عمران خان کا بجلی کا کنکشن کاٹ دیا گیا تھا جو کچھ عرصے بعد بل کی ادائیگی کرنے پر بحال کر دیا گیا تھا۔ یوں ان کی یہ تحریک ناکامی کا شکار ہوئی تھی۔ان کی اس سول نافرمانی کی تحریک کو ان کے مخالفین آج بھی ان پر طنز کرتے ہیں۔ اب جب وہ جیل بھرو تحریک کا اعلان کرنے والے ہیں تو تجزیہ کار مجب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ایسی تحریکیں ماضی میں کامیاب نہیں ہوئیں تو اب بھی اس کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔