سوموٹو نوٹس کی سماعت کرنے والابنچ تنقید کی زدمیں کیوں؟

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے لئے گئے سوموٹو نوٹس کی سماعت کیلئے تشکیل دئیے گئے بینچ سے جہاں سپریم کورٹ کے ججز میں واضح تقسیم کی جھلک دکھائی دیتی ہے ، دوسری طرف حکومت اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ سے الگ کر کے کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا ہے وہیں پاکستان بار کونسل نے لارجر بینچ میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

 

سیاسی تجزیہ کاروں نےسپریم کورٹ میں تقسیم کوبدقسمتی اور انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔تجزیہ کاروں حامدمیر ،شاہزیب خانزادہ ،منیب فاروق، انصار عباسی نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں تقسیم بدقسمتی اور انتہائی خطرناک بات ہے،سوموٹو نوٹس کی بنیاد ناصرف بڑی ناقص ہے بلکہ بہت احتیاط سے کہا جائے تو بہت متنازع ہے،سوال یہی اٹھ رہاہے کہ سینئر جج سردار طارق اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بینچ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا،پاکستان بار کونسل بھی ایک جج صاحب پر اعتراض اٹھارہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ جج صاحب اس بینچ میں شامل ہوجاتے ہیں جس پر بینچ پر سوالات اٹھ رہے ہیں، یہ بدقسمت تاریخ پھر دہرائی جارہی ہے جو کہ افتخار چوہدری کے وقت میں دہرائی گئی تھی ،سینئر ترین جج جو ہوتے ہیں وہ اگلے چیف جسٹس ہوتے ہیں اور ان کا تمام اہم معاملات میں شامل ہونا ضروری ہوتا ہے،بینچ کے اندر سے ہی یہ بات اٹھ گئی ہے کہ یہ سوموٹو نہیں لینا چاہئے تھا یہ سوموٹو نہیں بنتا تھا اور یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ اس طرح کی باتیں اورچیزیں ہم نے سپریم کورٹ میں نہیں سنی تھیں مگر یہ اس تقسیم کو ظاہر کررہی ہے جو بدقسمتی سے اس وقت ہمارے سپریم کورٹ میں موجود ہے اور یہ بہت ہی خطرناک بات ہے۔

تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ یہ بینچ اپنی تشکیل کے ساتھ ہی متنازع ہوچکا ہے اور کچھ جج صاحبان نے بھی بینچ کی تشکیل کے معاملے پر سوالات اٹھائے ہیں اور چیف جسٹس صاحب نے اس کا کوئی مناسب اور تسلی بخش جواب نہیں دیا اس وقت جس بحران کا ہمیں سامنا ہے اس میں دونوں طرف حکومت اور تحریک انصاف کی طرف سے ایک دوسرے پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام لگایا جارہا ہے ۔اس وقت پاکستان میں بہت ہی Politicized اور Polarized صورتحال ہے تو اس میں ایک ایسا بنچ جس نے کہ آئینی بحران کو حل کرنا ہے تو اس بینچ کے کچھ ارکان جو ہیں وہ خود بھی سوال اٹھارہے ہیں اور بینچ کے ایک ممبر پر سوال اٹھادیا گیا ہے اس کا نہ وہ ممبر صاحب جواب دے رہے ہیں اور نہ ہی چیف جسٹس کی طرف سے کوئی جواب دیا گیا ہے ۔سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کا مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ 2 ججز کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے، اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سےالگ کردیں۔

 

24 فروری کے روز ز خود نوٹس کی سماعت کے دوران فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس تو نہیں ملا، درخواست ہے سب کو نوٹس جاری کیے جائیں، بینچ کی تشکیل پر ہمیں 2 ججز پر اعتراض ہے، دونوں ججز کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔دوران سماعت جے یو آئی (ف)، مسلم لیگ (ن)، پاکستان بار کونسل کی جانب سے 2 ججز پر اعتراض کیا گیا، اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مشترکہ بیان عدالت میں پڑھا، بیان میں کہا گیا کہ دونوں ججز مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔دوران سماعت فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سے الگ کر لیں۔ انصاف کی فراہمی اور فئیر ٹرائل کے تناظر میں دونوں ججز صاحبان کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ 184/3 سے متعلق سمجھتا ہوں، کیوں نہ یہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے، فاروق نائیک نے کہا کہ اس وقت میں اس کی گہرائی میں نہیں جاؤں گا، میرا بھی یہی خیال ہے کہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔

 

اس موقع پر وکیل پیپلز پارٹی نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے پی ڈی ایم کی جانب سے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراض کو سنے، چیف جسٹس نے کہا کہ عام طور پر شہری عدالت کی دہلیز پر دستک دیتے ہیں، آج ہماری دہلیز پر آئین پاکستان نے دستک دی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جس سوال پر ازخود نوٹس لیا گیا یہ سیاسی معاملہ ہے، پارلیمنٹ لے کر جائیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نہیں سمجھتے اس معاملے کو تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ کو سنا جانا چاہیے، عدالت نے کہا پیر کے دن فل کورٹ بینچ بنانے یا نہ بنانے کے سوال پر سماعت ہوگی، پیر کے دن 2 ججز پر اٹھائے گئے اعتراض کو بھی سنیں گے۔اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس کیس کی مزید سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

 

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ کے اس سوال کو بھی کارروائی کا حصہ بنا لیا گیا تھا کہ کیا دونوں اسمبلیاں آئین کے مطابق تحلیل کی گئیں جب کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا تھا کہ ازخود نوٹس پر میرے تحفظات ہیں۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ازخود نوٹس ایسے وقت میں لیا گیا جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیر کے روز یکطرفہ طور پر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر مشاورت کے لیے ان کی دعوت کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

 

واضح رہے کہ 22فروری کے روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا تھا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی درخواست پر لیے گئے از خود نوٹس میں کہا کہ ’عدالت کے دو رکنی بینچ کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی‘۔نوٹس میں کہا گیا کہ انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مزید درخواستیں بھی دائر کردی گئی ہیں۔

 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجز بینچ تشکیل دیا ہے، جس میں سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود شامل نہیں ہیں۔ جس پر قانونی حلقوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔خیال رہےکہ23فروری کےروزمریم نواز نے پاکستان کے جس 5 رکنی ٹولے کو ملکی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا ان میں بھی سپریم کورٹ کے دو حاضر سروس ججز جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے جن کو آج حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے سوموٹو نوٹس کی سماعت کیلئے تشکیل دئیے گئے بنچ سے الگ کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

معروف گلوکار علی ظفر تنقید کی زد میں کیوں آگئے؟

Related Articles

Back to top button