الیکشن سر پر لیکن نواز شریف سیاسی بیانیے کی تلاش میں

الیکشن 2024 سر پر کھڑے ہیں لیکن ووٹ کو عزت دو کا اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرہ دے کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف اس وقت ایک واضح سیاسی بیانیے کی تلاش میں نظر آتے ہیں۔ پاکستانی سٹائل جمہوریت کو شاید ہی کوئی سمجھ پائے، عجیب گورکھ دھندا ہے۔۔سیاست کرو تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ”فنڈا“ اور اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملاؤ تو عوام سے دوری تو ایک طرف، اپنے حلیف بھی شک کرنے لگتے ہیں۔ پاکستان اس خطے کا واحد ملک ہے جہاں سیاسی بے یقینی ہمیشہ عروج پر رہتی ہے اور سیاستدان عجب مخمصے میں؟ جہاں فوج ڈنکے کی چوٹ پر کہتی ہے کہ اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن سیاستدان ہیں کہ اسی خلائی مخلوق کی طرف دیکھنے پر مجبور رہتے ییں۔ موجودہ صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ کی پیشکش عمران خان تو اپنے کیے کا خمیازہ بھگت ہی رہا ہے لیکن اس کے علاوہ جو سیاستدان، اپنی سیاست کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں، وہ نواز شریف ہیں۔

کئی برس تک خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے کے بعد واپس آ کر سیاسی میدان سجانے والے نواز شریف کی ساکھ پر سوالیہ نشان اٹھانے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کا یہ نعرہ ہی کافی ہے کہ ایک اور سلیکٹڈ وزیراعظم نہیں چلے گا۔۔ لہازا نواز شریف کی ساکھ دوسروں سے کچھ کچھ زیادہ ”سٹیک“ پر ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ماضی میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذمہ دار فوجی اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ائے ہیں۔ انکے لیے دوسرا مسلہ یہ ہے کہ اپنی الیکشن مہم چلانے کے لیے ان کے پاس اس وقت کوئی مضبوط بیانیہ موجود نہیں کیونکہ وہ ووٹ کو عزت دیتے دیتے اچانک دوبارہ سے اسٹیبلشمنٹ کو عزت دینے پر تل گئے ہیں اور عمران خان کی تحریک انصاف میاں صاحب کے سابقہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو لے کر چل رہی ہے۔ ایسے حالات میں نواز شریف کا سیاسی بیانیہ بن نہیں رہا اور وہ بغیر بیانیے کے کنفیوزڈ سیاست کرتے ہوئے نظر اتے ہیں۔

واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا سالوں بعد اس دھرتی پر قدم رکھنا، کسی ڈھیل یا ڈیل کے بغیر ممکن نہیں تھا، اور واپسی کے فورا بعد ان کی نااہلی اور کیسز کا ختم ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ یہ 2019 کی بات ہے جب نوازشریف کی خرابیء صحت کے باعث چھوٹے برادر شہباز شریف کی گارنٹی پر، عدالت نے پانامہ ریفرنس میں 4 ہفتے کی مہلت دی تھی۔۔اور پھر علاج تو ہو گیا مگر واپسی کی اڑان بھرنے سے کترانے پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو گئے۔ پھر خان صاحب کا جیل جانا اور میاں صاحب کا واپس آنا، یہ قصہ بھی اب پرانا ہوا۔۔اب تو الیکشن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ ہر ایک کی نظر اسی خبر پر ہے۔

خیر اب تو حدیبیہ، العزیزیہ جیسے پیچیدہ کیسوں سے بریت کو بھی کسی خاص اشارے سے جوڑا جا رہا ہے۔ فضا بھی سازگار ہے، مسلم لیگ ن کی جس مقبولیت کو پی ٹی آئی نے کارنر کر دیا تھا، اس میں بھی بتدریج اضافہ نظر آ رہا ہے۔ نواز شریف نہ صرف سیاسی طور پر متحرک ہو چکے ہیں بلکہ کبھی کبھار اپنے بیانیے کو تگڑا کرنے کے لئے مقتدر حلقوں کو للکار بھی لیتے ہیں۔ اگرچہ شہباز شریف انھیں ہر قدم پھونک کر رکھنے کی ایڈوائس دیتے رہتے ہیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ نواز شریف پرو اسٹیبلشمنٹ چلیں یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ، فی الوقت آئندہ حکومت سازی کی واحد آپشن ہیں۔۔ یہ اور بات ہے کہ مدمقابل جماعتیں خصوصاً پیپلز پارٹی انھیں ٹف ٹائم دینے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔ یہ پٹاری 8 فروری سے پہلے شاید ہی کوئی کھول سکے لیکن یہ ضرور ہے کہ نواز شریف جب تک ”ووٹ کو عزت دو“ جیسا کوئی دوسرا، اور قدرے دبنگ بیانیہ نہیں لاتے، چوتھی بار میدان میں پورے اعتماد کے ساتھ اترنا آسان نہیں ہو گا۔

ویسے تو ان کے سیاسی کیریئر میں کئی مشکل مقام آئے۔ 1980 اور 90 کی دہائی، 1993 کی اتھل پتھل اور 2016 سے 2018 تک تو سیاسی بساط ہی لپیٹی جا چکی، لیکن وہ مشکل سے مشکل حالات سے بھی کمال ہنرمندی اور سیاسی فہم کے ساتھ نمٹنے کی مہارت رکھتے ہیں۔2022 ان کے لئے اگرچہ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا لیکن پی ڈی ایم کے دُلار اور لاڈلے بھائی کے اقتدار نے جلد ہی چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔۔بگڑی معیشت، منہ زور مہنگائی اور عوامی ناراضگی قابو ہی نہیں آ رہی تھی۔ حتیٰ کہ اسحٰق ڈار کی انٹری نے بھی رنگ میں بھنگ ہی ڈالا۔ نہ تو معیشت کو اور نہ ہی ڈالر کو لگام ڈالی جا سکی۔ سمندر پار سے نواز شریف کے مشورے بھی کام نہ آئے اور حکومت ناکامی کا طوق گلے میں ڈالے چلتی بنی۔ آج جب نواز شریف کے بیانات دیکھیں اور خطابات سنیں تو وہ چھوٹے بھائی کی ڈیڑھ سالہ حکمرانی کا دور اکثر سِکپ کر جاتے ہیں۔ وہ خان صاحب کی حکومت سے اپنے گذشتہ دور کا موازنہ کرنے کو تو تیار ہیں لیکن شہباز شریف کی حکومت کا ذکر تک نہیں کرتے۔ بہرحال اب جب الیکشن سر پر ہیں، نہ تو کسی سیاسی جماعت میں گہما گہمی نظر آتی ہے اور نہ ہی وہ پہلے جیسا جوش وخروش دیکھنے میں آ رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر نواز شریف کی جماعت اگلے انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے کے بلند و بانگ دعوے کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ پس پردہ معاملات طے ہو چکے ہیں جس کا ایک واضح ثبوت تحریک

چیئرمین PTI بلے کے نشان کی واپسی کیلئے پرعزم

انصاف سے اس کا انتخابی نشان بلا چھین لینا ہے۔

Back to top button