سہیل وڑائچ کا ملاوٹ کی لعنت کے خلاف گرینڈ آپریشن کا مطالبہ

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے ملاوٹ کی لعنت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے اس کے سیاسی، سماجی، مذہبی اور ثقافتی حلقوں میں مکمل اتفاق ہے کہ ملاوٹ کو ختم ہونا چاہیے، مگر آج تک کسی کو علم نہیں ہو سکا کہ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟ مجھے یقین ہے کہ اگر حکومت ملاوٹ کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع کرے گی تو ہر طرف تالیاں بجیں گی، کوئی ایک آواز بھی اس نیک کام کی مخالفت میں بلند نہیں ہو گی، لیکن افسوس کہ 75 برس گزر گے لیکن کوئی حکومت ملاوٹ ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ ترین سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہاں اسلام کا نام لینے والے فوجی حکمران آئے، روشن خیال لبرل سویلین حکمران بھی آئے، دائیں بازو والے بھی برسر اقتدار آئے، اور بائیں بازو والوں کو بھی حکومت ملی، مارشل لا بھی آئے اور جمہوری ادوار بھی، مگر کوئی بھی حکمران ملاوٹ کا خاتمہ نہیں کر پایا، حالانکہ کوئی بھی وزیراعظم یہ قدم اٹھاتا تو پوری قوم اس کے ساتھ ہوتی اور اس کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ نواز شریف آئے، شہباز شریف آئے، عمران خان آئے، آصف زرداری آئے، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف تک آئے، ہر ایک نے اِدھر سے اُدھر کر دیا ،ملک کی پالیسیاں بدل ڈالیں، نئے نئے بیانیے اپنائے ،خارجہ پالیسیوں میں سیاہ کو سفید کر دیا ،آئین بنائے، آئین توڑے، مارشل لا لگائے، کوڑوں کی سزائیں دیں، لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا حتیٰ کہ مخالفوں کو تختہ دار تک چڑھایا گیا مگر پوری قوم کیلئے زہرِ قاتل ملاوٹ کے عذاب کو ختم کرنے کا سوچا تک نہ کیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک کوئی یہ کھوج بھی نہیں لگایا جا سکا کہ ملاوٹ کی لعنت کے خلاف کوئی بھی حکمران کھڑا کیوں نہیں ہوتا۔
سہیل وڑائچ سوال کرتے ہیں کہ آپ بتائیں کہ کسی ملک میں ملاوٹ سے بڑا کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے؟ اگر نہیں تو سوال یہ ہے کہ حکمران ملاوٹ کو ختم کیوں نہیں کرتے؟ یہاں پر ہر حکومت مخالفوں کو ناکوں چنے چبواتی ہے مگر ہمارے بچوں کے دشمن دودھ، ادویات اور خوراک میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف کیوں کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ دنیا کی جمہوری حکومتیں ہوں، فوجی یا آمرانہ وہاں ملاوٹ کے جرم کا کوئی تصور تک نہیں مگر پاکستان میں کوئی بھی چیز بغیر ملاوٹ کے دستیاب نہیں، یہاں آٹے سے لے کر گوشت تک کھانے پینے کی ہر چیز میں ملاوٹ ہے، مرچوں میں اینٹوں کا چورا ہے، دواؤں میں چونا ہے اور دودھ میں زہر آلود کیمیکلز ڈالے جا رہے ہیں، لیکن یہ سب کچھ کرنے والے سر عام دندناتے پھرتے ہیں۔
ایسے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ ہم عوام، ہمارے حکمران، ہمارے جرنیل، اور ہمارے سیاستدان ملاوٹ کو ختم کیوں نہیں کرتے؟
فرض کریں آج شہباز شریف اپنی پہلی ترجیح ملاوٹ کا خاتمہ بنا لیتے ہیں تو کیا ان کے ہر اقدام کی مخالفت کرنے والی تحریک انصاف ایک لفظ بھی مخالفت میں کہہ سکے گی؟ نہیں، وہ ایسا نہیں کر پائے گی۔ ملک کا کوئی بھی شخص اس معاملے میں ان کی مخالفت نہیں کرے گا۔ ہر طرف تحسین ہوگی، ہر طرف تالیاں بجیں گی تاریخ میں نام ہوگا، بچے خالص خوراک کھائیں گے بیرون ملک سے آنے والے بغیر شک کئے ہر چیز استعمال کرسکیں گے۔ سینیئر صحافی کے بقول، اگر ملاوٹ کے خاتمے کا کوئی تھوڑا بہت مخالف ہو سکتا ہے تو وہ ملاوٹ کرنے والا ہی ہو سکتا ہے، لیکن کیا کبھی چوروں اور ڈاکوؤں نے مظاہرہ کیا ہے کہ انہیں چوری اور ڈاکے کی کھلی چُھوٹ دے دی جائے؟ کیا کبھی کسی قاتل کو آج تک یہ جرأت ہوئی ہے کہ وہ یہ کہے کہ قانون سے موت کی سزا حذف کر دی جائے۔ تاہم 75 برسوں میں ہم بھاری اکثریت میں ہونے کے باوجود چند ملاوٹ کرنے والوں سے خوف زدہ ہیں۔ ہماری قانون ساز اسمبلیاں آج تک امریکہ، یورپ حتیٰ کہ چین اور سعودی عرب جیسے قوانین تشکیل نہیں دے سکیں کہ چند کالی بھیڑیں ملاوٹ کرنے سے خوفزدہ ہو کر یہ کام چھوڑ دیں۔
سہیل وڑائچ سوال کرتے ہیں کہ آج تک کیا کسی ملاوٹ کرنے والے کو عدالتوں نے ایسی سزا دی ہے کہ وہ ایک قابل عبرت مثال بن جائے، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس نے وزیر اعظموں کو تو تختہ دار تک پہنچایا انہیں وزارت عظمیٰ کیلئے نااہل بھی کیا لیکن کیا کبھی انہوں نے دودھ میں ملاوٹ کرنے والے کسی مکروہ شخص کو بھی انجام تک پہنچایا؟ پاکستان میں ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں۔ اس ملک کے قابل ترین ججوں نے اکثریت سے بنائے پارلیمنٹ کے قوانین کو مسترد کیا ہے مگر کیا ملاوٹ کے خلاف بھی کبھی کسی آئین سازی کی تجویز دی ہے؟ کیا سینکڑوں اراکین پارلیمان نے کبھی پارلیمنٹ سے ملاوٹ کے مکمل خاتمے اور سخت ترین سزاؤں کا کوئی قانون منظور کروایا ہے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق پاکستان میں ملاوٹ کے خلاف قانون بھی موجود ہیں اور سزائیں بھی۔ یہاں محکمہ پولیس بھی ہے، اور محکمہ خوراک بھی موجود ہے، اب تو فوڈ اتھارٹیاں بھی سرگرم عمل ہیں مگر مجال ہے کہ ملاوٹ کے عفریت کو ذرہ برابر بھی کوئی فرق پڑا ہو۔ ہم سب سیاسی لڑائیاں جیتنے اور ہارنے میں مصروف ہیں۔ ہم خوش حالی، امید اور ناامیدی پر مباحث میں زور و شور سے حصہ لیتے ہیں مگر ہم اسلامی نقطہ نظر سے سب سے بڑے گناہ، سماجی طور پر بدترین عمل اور صحت کے اعتبار سے خطرناک ترین چیز ملاوٹ کے خاتمے کو کبھی ترجیح نہیں بنا سکے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ امریکا سے ڈالر آجائیں، امارات اور سعودیہ سے درہم اور ریال آ جائیں، چین سے مالی امداد بھی آ جائے مگر ہم ملاوٹ والی ناقص خوراک کھاتے رہیں تو یہ کونسی خوش حالی ہوگی؟ وہ بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں امریکہ میں بھی ملاوٹ کی لعنت موجود تھی، 1920ء کی دہائی میں ایسی قانون سازی کی گئی کہ ملاوٹ کو ناممکن بنا دیا گیا، ایسی سخت سزائیں دی گئیں کہ کوئی ملاوٹ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ خلیج کے چھوٹے چھوٹے ممالک میں ملاوٹ سے ہر چیز پاک ہے۔ ہم دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت، جری فوج، اسلامی جمہوری آئین کے باوجود ملاوٹ کے سامنے بے بس ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف ہماری ترجیحات ہیں آج اگر کوئی بھی جماعت ملک سے ملاوٹ کے خاتمے کا جھنڈا اٹھالے، پارلیمان ملاوٹ کے خلاف سخت سے سخت قانون بنائے، جج صاحبان قابل عبرت فیصلے سنائیں، ملزموں کو کسی صورت نہ چھوڑیں، ریاستی ادارے تہیہ کر لیں کہ ملاوٹ نہیں ہونے دینی، ہم عوام بھی ملاوٹ کرنے والوں کو کوئی رعایت نہ دیں تو پاکستان سے اس لعنت کو ختم کرنا آسان تو ہو جائے گا۔ کاش کوئی تو پہل کرے۔