تذکرہ کچھ ذاتی پریشانی کا

تحریر : نصرت جاوید
بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت
وضع داری ہی نہیں جس اندازِ صحافت کا میں عادی ہوں اس کی اخلاقیات کا بھی تقاضہ ہے کہ اخبار کے لئے لکھے کالموں میں ذاتی پریشانیوں کے ذکر سے گریزاختیار کیا جائے۔ مذکورہ تقاضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہاتھ میں قلم پکڑے تقریباََ 20منٹ گزرگئے۔ پہلا لفظ بھی نہ لکھ پایا۔ اچانک مگر یہ خیال آیا کہ جس پریشانی نے مجھے منگل کی صبح دس بجے سے دوپہر کے تقریباََ اڑھائی بجے تک گھیرے رکھا ویسی پریشانی کا اس کالم کے باقاعدہ قارئین کی وافر تعداد کو بھی خدانخواستہ سامنا کرناپڑسکتا ہے۔ ان کے بھلے کی خاطر لہٰذا ذاتی تجربے کو بیان کردینا چاہیے۔
مختصر ترین الفاظ میں کہانی ہے کہ میری بیوی ،بچی اور داماد سمیت جمعہ کی صبح سکردو پرواز کر گئی تھی۔ پیر کی صبح واپسی کی پرواز تھی۔ واپسی کی پرواز مگر موسم کی خرابی کی وجہ سے منسوخ ہوگئی۔ منگل کے روز جو جہاز چلنے کی امید تھی ان میں ایک بھی خالی نشست میسر نہیں تھی۔ بیوی کو اگر میری طرح روز کی روٹی روز کمانے کی مشقت سے گزرنے کو مجبوری لاحق نہ ہوتی تو سکردو میں قیام بڑھایا جاسکتا تھا۔ اسے ناممکن پاتے ہوئے بذریعہ سڑک واپسی کا فیصلہ ہوا۔ جاگلوٹ تک مجھ سے موبائل فون کے ذریعے اس کا رابطہ رہا۔ آخری پیغام پیر کی شام ساڑھے سات بجے کے قریب یہ ملا کہ بیگم صاحبہ چلاس سے دو گھنٹوں کی دوری پر ہیں۔
منگل کی صبح اٹھ کر فون دیکھا تو بیوی اور بچی کی جانب سے کوئی فون یا پیغام نہیں آیا ہوا تھا۔ فرض کرلیا کہ تھکن سے چور سورہے ہوں گے۔ معمول کے مطابق اخبار میں چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے بعد دوسرے دن کے لئے کالم لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ کالم لکھ کر ٹائپنگ کے لئے بھجوادیا تو خیال آیا کہ فیملی کو چیک کیا جائے۔ ان تینوں کے فون میں سے لیکن کسی ایک سے بھی رابطہ مسلسل کاوشوں کے باوجود نہ ہوپایا۔ دریں اثناء ٹائپ شدہ کالم بھی مجھے وصول ہوگیا۔ اس کی پروف ریڈنگ کی اور دفتر بھجوادیا۔
کالم دفتر بھجوادینے کے بعد میں تقریباََ ایک گھنٹے تک مسلسل اپنی بیوی، بیٹی اور داماد کے فون نمبروں کو ملانے کی کوشش کرتا رہا۔ ہر فون سے ’’خبر‘‘ یہ آتی کہ جس نمبرسے میں رابطہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں وہ ’’بند‘‘ ہے۔ ایک گھنٹے کے بعد میرے ہاتھ پائوںپھول گئے۔ سو طرح کے خوف ذہن میں جمع ہونے لگے۔ فیملی کے ’’اغواء ‘‘ ہوجانے کا خوف شدت سے محسوس ہونے لگا۔ پریشانی کے اس عالم میں اپنے ایک صحافی دوست سے رابطہ کیا۔ وہ انتہائی مخلص ومتحرک ہونے کے علاوہ ٹھنڈے مزاج کا حامل ہے۔ دوستوں کی مدد کرنے کا ہر ڈھنگ استعمال کرنے کو آمادہ رہتا ہے۔ اس کا نام لکھوں گا تو ناراض ہوجائے گا۔ بہرحال مہربان دوست سے اپنی فکر کا اظہار کیا تو اس ٹھنڈے مزاج شخص کو بھی یہ بات تسلیم کرنا پڑی کہ میرا فیملی کے تین افراد کے ٹیلی فونوں سے رابطہ نہ ہونا ’’غیر معمولی‘‘ ہے۔ ہمیں مگر گھبرانے کے بجائے ٹھنڈے مزاج سے اس کا حل ڈھونڈنا ہوگا۔
حل ڈھونڈتے ہوئے اولیں مشکل یہ پیش آئی کہ مجھے اس ہوٹل کا نام بھی پوری طرح یاد نہیں تھا جہاں میری فیملی سکردو میں قیام پذیر تھی۔ اپنی لاعلمی سے پہلا سبق یہ سیکھا ہے کہ جب بھی آپ کے خاندان کا کوئی فرد کسی دوسرے شہر جائے۔ وہاں پہنچ کر آپ کو خیرخیریت سے پہنچ جانے کی اطلاع دے تو آپ اس ہوٹل یا ریسٹ ہائوس کا نام، مقام اور فون نمبر وغیرہ فی الفور حاصل کریں۔ بہرحال صحافی دوستوں کی مدد سے بالآخر یہ پتہ لگالیا گیا کہ میری فیملی سکردو کے کس ہوٹل میں قیام پذیر تھی۔ وہاں سے ان کی روانگی بھی کنفرم ہوگئی اور یہ اطلاع بھی مل گئی کہ وہ سکردو سے کتنے بجے کونسی گاڑی کرائے پر لے کر اسلام آباد روانہ ہوئے تھے۔ ان کے ڈرائیور کے نام اور اس کے ٹیلی فون کا پتہ بھی چل گیا۔ مختلف سرکاری اداروں سے مسلسل رابطے کے بعد بالآخر یہ اطلاع ملی کہ جس گاڑی میں فیملی سفر کررہی ہے وہ منگل کی دوپہر داسو کے قریب پہنچنے والی ہے۔
منگل کی رات گیارہ بجے بیوی اور بچے گھر لوٹے تو خبر ملی کہ چلاس سے روانہ ہوتے ہی ان کے فون بند ہوگئے تھے۔ چلاس سے اسلام آباد آنے والی سڑک بہت خراب حالت میں ہے۔ بھاشا اور داسو ڈیم کی تعمیر کی بدولت ایک خاص وجہ سے جو مجھے بیان کرنے کی ضرورت نہیں چلاس سے اسلام آباد آنے والی سڑک پر بسااوقات تین سے چار گھنٹوں تک موبائل فون کے سگنل کچھ ’’ماہرین‘‘ کی نقل وحرکت محفوظ بنانے کے لئے بند کردئیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے میں جن اوقات میں اپنی فیملی سے رابطے کی کوشش کررہا تھایہ وہی اوقات تھے جب ’’حساس‘‘ نوعیت کی نقل وحرکت ہورہی تھی۔
جو ماہرین ہمارے مستقبل کے پانی کی ضروریات کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے ہمارے دور درازشمالی علاقوں میں کام کررہے ہیں ان کا تحفظ اور سکون ہر حوالے سے ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ چلاس سے اسلام آباد آنے والی سڑک پر لیکن پاکستان کے دیگر شہروں سے آئے سیاح بھی سینکڑوں کی تعداد میں سفر کرتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں حکومت کو یہ بندوبست یقینی بنانا چاہیے جو مقامی سیاحوں کو تلقین کرے کہ چلاس سے روانہ ہونے سے قبل وہ اپنے خاندان کو یہ اطلاع دیں کہ ان کے سفر کے دوران فلاں سے فلاں مقام تک کتنے گھنٹوں تک موبائل سگنل میسر نہیں ہوں گے۔ جو اطلاع چلاس سے روانہ ہونے والوں کو بذریعہ فون فراہم کی جائے اسے وہاں موجود سیاح اپنے گھروالوں کو فارورڈ کرتے ہوئے انہیں ذہن مائوف کرنے والے ایسے خیالات سے محفوظ بناسکتے ہیں جنہوں نے مجھ جیسے ’’جہاندیدہ‘‘ شخص کوبھی کئی گھنٹوں تک وہمی مائوں کی طرح پریشان رکھا۔
صدر ٹرمپ نے علاقائی حالات میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت اور فیصلہ کن کردار کی تعریف کی : آئی ایس پی آر
اپنی پریشانی کی اس کالم کے ذریعے نکاسی کے بعد خیال آیا ہے کہ ٹرمپ نے تمام تر دھمکیوں کے باوجود ابھی تک ایران پر فضائی حملہ نہیں کیا ہے(بدھ کی صبح سوا گیارہ بجے تک)۔بدھ کی دوپہر واشنگٹن میں موجود پاک آرمی کے سربراہ کے اعزاز میں وائٹ ہائوس میں کھانے کا اہتمام بھی کررہا ہے۔ کھانے کی یہ دعوت پاکستان میں بے تحاشہ لوگوں کو خوش گوار وناخوش گوار انداز میں حیران وپریشان کردے گی۔ لنچ کے بعد وہ دوبارہ کینیڈا چلا جائے گا جہاں G-7کا اجلاس اختتامی مراحل سے گزرنے کے قریب ہوگا۔ سوال اٹھتا ہے کہ کینیڈا میں اس کی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے تنہائی میں کچھ لمحوں کے لئے ملاقات ہوگی یا نہیں۔ اگر نہ ہوئی تو واضح ہوجائے گا کہ مودی نے ٹرمپ کو واقعتا کچھ ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر ناراض کردیا ہے۔ پاکستان کے لئے وقتی طورپر یہ ’’اچھی‘‘ خبر محسوس ہوگی۔ مودی مگر خود کو نظرانداز کئے جانا کب تک برداشت کرے گا؟ اس کے حوصلے کا امتحان شروع ہوجائے گا۔ فی الوقت اگرچہ دنیا کو پاک-بھارت کشیدگی سے کہیں زیادہ فکر مندی ایران کے بارے میں محسوس ہورہی ہے۔