آئینی ترمیم کا معاملہ جسٹس فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے آگے بڑھ سکتا ہے : عرفان صدیقی
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کے پیکج کی منظوری کےلیے کوئی ٹائم فریم طے نہیں کیاگیا، تجویز ہے کہ یہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سےآگے بڑھ سکتا ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے مولانا فضل الرحمٰن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ملاقات کےدوران دونوں رہنماؤں نے مجوزہ آئینی ترمیم،ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے مولانا فضل الرحمٰن کو جے یو آئی ف کے دوبارہ سربراہ منتخب ہونےپر بھی مبارک باد دی۔ملاقات میں مولانا اسد محمود اور جے یو آئی ف کےدیگر رہنما بھی موجود تھے۔
بعد ازاں صحافیوں سےگفتگو کرتےہوئے عرفان صدیقی نے کہاکہ آئینی ترامیم وسیع تر سیاسی اتفاق رائے حاصل کرنے کےبعد ہی منظور کی جائیں گی اور اس حوالےسے ایک دو ہفتے میں صورت حال واضح ہوجائے گی۔ان کاکہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن آئینی عدالت کے قیام اور عدالتی تقرریوں کے طریقہ کار کو بحال کرنے کےخیال کی حمایت کرتےہیں تاہم انہوں نے بعض امور پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس پر ان کی قانونی ٹیم جائزہ لےرہی ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایاکہ مولانا فضل الرحمٰن اس بات کو یقینی بناناچاہتے ہیں کہ ترامیم میں بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت حاصل کرنےکی اہمیت پر زور دیتے ہوئےکہا کہ حکومت ان کی حمایت سے ترامیم کو منظور کرنےکو ترجیح دے گی۔
حکومت کی جانب سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوششوں سے متعلق سوال پر انہوں نےواضح کیا کہ مجوزہ ترامیم کسی مخصوص فرد کےلیے نہیں کی جارہی ہیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے سپریم کورٹ کےمئی 2022 کے فیصلے پر بھی تنقید کی، جس میں کہاگیا تھا کہ آرٹیکل 63-اے کے تحت پارٹی لائن کے خلاف ڈالےگئے ووٹوں کو شمار نہیں کیاجانا چاہیے۔ انہوں نےکہا ’یہ آئین میں کہاں لکھا ہے‘؟انہوں نے کہاکہ پارٹی لائن کےخلاف ووٹ صرف نااہلی کا باعث بنتا ہے،تاہم ایسا لگتا ہے کہ نااہلی کی شق کی تشریح کےخلاف نظرثانی کی درخواست میں عدالت ’اپنی غلطی سدھارنے‘ جا رہی ہے۔ان کا کہناتھا کہ آئین کے آرٹیکل 239(5) کےتحت کسی بھی عدالت کو یہ اختیار نہیں ہےکہ وہ پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کی گئی آئینی ترمیم کو چیلنج کرے۔