انقلاب وڑ گیا،پی ٹی آئی کی 14اگست کی احتجاجی کال واپس

پی ٹی آئی کا انقلابی احتجاج بغیر اعلان کے خاموش موت مر گیا۔تحریک انصاف نے 14 اگست کی احتجاج کی کال غیر اعلانیہ طور پر واپس لے لی۔ گرفتاریوں کے خوف سے مرکزی قیادت کے بلوں میں چھپنےاور اندرونی انتشار نے تحریک انصاف کو 14 اگست کے اعلان کردہ احتجاج سے عملاًپیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یومِ آزادی جیسے قومی یکجہتی کے موقع پر پی ٹی آئی کی احتجاج کی متنازع کال نہ صرف عوامی حمایت سے محروم دکھائی دیتی ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی پارٹی کے لیے خطرناک جوا بن چکی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ 14اگست کو احتجاج کی کال واپس لینے سے پی ٹی آئی کی رہی سہی ساکھ کا بھی جنازہ نکل جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ قیادت کی غیر سنجیدگی، کارکنوں کی بے خبری، اور عوامی مزاج کو نظر انداز کرنے کی یہ روش، تحریک انصاف کی گرتی ہوئی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب عمران خان کی رہائی کے لیے تحریک کو کسی بھی عوامی دباؤ کی شدید ضرورت ہے ایسے میں پی ٹی آئی قیادت نے 14اگست کے احتجاج کی کال دے کر عمران خان کی رہائی کی مہم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے جس کے بعد عمران خان کی رہائی تو درکنا پی ٹی آئی پر شکنجا کسنے کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت کی پراسرار خاموشی کی وجہ سے 14 اگست کے احتجاج کی تیاریاں نہ صرف سست روی کا شکار ہیں بلکہ کارکنان اور عہدیداروں کو تاحال یہ علم ہی نہیں کہ احتجاج کہاں اور کس نوعیت کا ہوگا۔ پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں کارکنان حکمت عملی کے منتظر ہیں جبکہ عوام کی ایک بڑی تعداد اس احتجاج کو بے وقت اور غیر ضروری قرار دے رہی ہے۔ تجزیہ کار یاد دلاتے ہیں کہ 5 اگست کو عمران خان کی گرفتاری کے دو سال مکمل ہونے پر کیے گئے احتجاجی مظاہرے بری طرح ناکام ہوئے تھے۔ نہ عوامی شمولیت نظر آئی تھی اور نہ کوئی سیاسی دباؤ پیدا ہوا تھا۔ اب 14 اگست کو یومِ آزادی کے موقع پر احتجاج کی کال کو بھی سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ مبصرین کے مطابق، "عوام جشن آزادی کے دن سڑکوں پر خوشیاں منانے نکلتے ہیں، نہ کہ سیاسی دھرنوں اور ریلیوں میں شرکت کرنے۔ پی ٹی آئی اگر اس حقیقت کو نظر انداز کرے گی تو یقینی طور پر سیاسی نقصان اٹھائے گی۔”
اس حوالے سے پارٹی کے اندرونی حلقے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تنظیمی ہم آہنگی کے فقدان اور رہنماؤں کے درمیان رابطوں کی کمی کے سبب پی ٹی آئی کو مسلسل ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب عوام تو ایک طرف پی ٹی آئی کارکنان بھی پارٹی کی کسی احتجاجی کال کو سنجیدہ نہیں لیتے جبکہ اب گرفتاریوں کے خوف سے متعدد کلیدی رہنما منظر سے غائب ہیں، جبکہ کئی کے بارے میں خدشہ ہے کہ احتجاج سے قبل ہی گرفتار کر لیے جائیں گے۔ اس صورتحال نے کارکنان کے حوصلے مزید پست کر دئیے ہیں دوسری جانب عوام نے پہلے بھی پی ٹی آئی کے 5 اگست کے احتجاج سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا، اور اب انھوں نے 14 اگست کی کال کو بھی رد کر دیا ہے۔ اسی لئے خیبرپختونخوا سمیت ملک کے کسی حصے میں بھی اس حوالے سے نہ تو کوئی احتجاجی بینر یا پوسٹر نصب ہے، اور نہ ہی کسی بڑی عوامی مہم کے آثار نظر آتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اگر پی ٹی آئی کا 14 اگست کا احتجاج بھی کمزور رہا تو تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے گر سکتا ہے، جس کا براہِ راست اثر عمران خان کی رہائی کے لیے چلائی جانے والی مہم پر پڑے گا۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق جشن آزادی کے دن احتجاج کی کال دینا خود ایک سیاسی فاش غلطی ہے کیونکہ 14 اگست قومی یکجہتی کا دن ہے جبکہ پی ٹی آئی کا احتجاج اس موقع کو منفی سیاست میں بدلنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ اس فیصلے سے پارٹی عوامی ہمدردی کھونے کے ساتھ ساتھ حکومت کے ہاتھ مضبوط کر دے گی۔” مبصرین کے بقول مجموعی طور پر پی ٹی آئی کا 14 اگست کا احتجاج منصوبہ بندی، قیادت، عوامی حمایت اور حکمت عملی، چاروں محاذوں پر کمزور نظر آ رہا ہے۔ اگر پارٹی نے فوری طور پر واضح اور مؤثر لائحہ عمل نہ دیا تو یہ احتجاج نہ صرف ناکام ہوگا بلکہ پارٹی کی رہی سہی سیاسی ساکھکا بھی جنازہ نکال دے گا۔
