پشتون تحفظ مومنٹ کی پیدائش سے لیکر پابندی تک کی داستان
وفاقی حکومت کی جانب سے پابندی کا شکار ہونے والی پشتون تحفظ موومنٹ کو جنوری 2018 میں تب وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہوئی جب کراچی میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پی ٹی ایم کے بانی منظور پشتین نے پختون نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کا نعرہ لگایا تھا جس سے اسے بہت کم عرصے میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہو گئی اور اس نے بڑے بڑے جلسے جلوس کرنا شروع کر دیے۔ جنوری 2018 سے لے کر اب تک اس تنظیم میں شامل بہت سے لوگ بالخصوص منظور پشتین اور ان کے قریبی ساتھیوں بشمول محسن داوڑ اور علی وزیر کو مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سابق رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر آج بھی جیل میں بند ہیں جب کہ محسن داوڑ زندگی کو درپیش خطرات کے باعث بیرون ملک چلے گئے ہیں۔
یاد ریے محسن داوڑ کی قیادت میں پشتون تحفظ موومنٹ کے کئی رہنماؤں نے الگ ہو کر دو سال قبل نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک اور پارٹی قائم کی تھی مگر اسے 2024 کے انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔تجزیہ کاروں کے مطابق محسن داوڑ کے الگ ہونے کے بعد سے پی ٹی ایم میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں 2004 میں شدت پسندی میں اضافے سے حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو مقامی افراد نے اس معاملے پر آواز اٹھانا شروع کی۔ تاہم علاقے کے حالات اور امن و امان کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی گئی، جس کے بعد فوج نے قبائلی علاقوں میں 2007 میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں 2009 اور 2010 تک ان علاقوں کے حالات قدرے بہتر تو ہوئے، لیکن یہاں سے لاکھوں افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ اس تمام عرصے کے دوران شمالی وزیرستان کا ایک نوجوان، جو اس وقت ڈاکٹر آف ویٹرنری میڈیسن کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، دوران تعلیم اپنے علاقے کے حالات پر آواز اٹھاتا رہا۔ 2014 میں اس نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر مقامی سطح پر ’محسود تحفظ موومنٹ‘ کی بنیاد رکھی اور امن و امان کے لیے چھوٹے موٹے مظاہرے شروع کیے۔ اس تحریک کی سربراہی منظور احمد پشتین کے ہاتھوں میں تھی۔
2017 میں منظور پشتین کی تنظیم تب قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کا حصہ بنی جب انہوں نے اسلام آباد کی جانب 10 روزہ مارچ کا اعلان کیا۔ اس دوران تنظیم کے حامیوں کی تعداد بڑھنا شروع ہو گئی۔ انکے مطالبات میں علاقے میں امن و امان کا قیام اور لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت بے گھر افراد کی واپسی شامل تھی۔
منظور پشتین کے اس مارچ کو اتنی پذیرائی ملی کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سمیت، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور دیگر سیاسی رہنما نہ صرف اس میں شریک ہوئے اور تنظیم کے مطالبات کی حمایت کا اعلان کیا۔
تب سے منظور پشتین نے محسود تحفظ موومنٹ سے اس تحریک کا نام پشتون تحفظ موومنٹ رکھ دیا اور تحریک کی باقاعدہ تنظیم سازی بھی شروع کی۔ پی ٹی ایم نے بعد ازاں پشاور، کراچی، سوات، لاہور، کوئٹہ سمیت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے منعقد کیے، جن میں وہ حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کیا کرتے تھے۔ ان جلسوں اور جلوسوں میں منظور پشتین پاکستان فوج پر بھی تنقید کرتے رہے۔ ان الزامات پر 2018 میں اس وقت کے پشاور کے کور کمانڈر نے ایک تقریب میں کہا کہ ’منظور ہمارا اپنا بچہ ہے اور اگر غصے میں بھی ہے تو ہم ان کو سنیں گے۔‘
یہ وہ وقت تھا جب حکومت نے پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک جرگہ بھی بنایا جس کی پی ٹی ایم کے رہنماؤں سے مختلف نشستیں بھی ہوئی تھیں۔ پی ٹی ایم کے مظاہروں اور جلسوں کا سلسلہ 2018 سے 2020 تک جاری رہا اور وہ اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ان جلسوں اور جلوسوں میں تیزی تب آئی جب کراچی میں 2018 میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
پی ٹی ایم بعد میں کچھ اختلافات کا بھی شکار ہوئی جب پی ٹی ایم کے معروف چہرے محسن داوڑ اور علی وزیر نے پارلیمانی سیاست میں قدم رکھا اور اراکین قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ منظور پشتین نے اسوقت ان دونوں کی انتخابی سیاست میں حصہ لینے پر اعلان کیا تھا کہ ’ہماری تحریک غیر پارلیمانی ہے اور رہے گی۔ لیکن ہم پی ٹی ایم کے کسی بھی رہنما کو پارلیمانی سیاست سے منع نہیں کر سکتے’۔ محسن داوڑ اور پی ٹی ایم کے کئی سرگرم ساتھیوں نے پی ٹی ایم سے راہیں تب جدا کیں جب 2021 میں پی ٹی ایم کے بانی رکن محسن داوڑ نے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔
تاہم محسن داوڑ سمیت ان کی پارٹی کی جانب سے پی ٹی ایم کے بیانیے کو حمایت ملتی رہی اور پی ٹی ایم کی تقریبات اور جلسوں میں بھی محسن داوڑ سمیت ان کی پارٹی کے لوگ شریک ہوتے رہے۔
پی ٹی ایم کی ریاستی پالیسیوں کے خلاف سخت بیانیے کی وجہ سے کئی مرتبہ تنظیم کے سربراہ منظور پشتین اور دیگر ساتھیوں کو گرفتار بھی کیا گیا جس میں سابق رکن اسمبلی علی وزیر بھی شامل ہیں۔ منظور پشتین اور ان کی تنظیم پر بیرون ممالک سے فنڈنگ لینے اور ملک میں لسانی تفریق پیدا کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے۔ پاکستان فوج کی جانب سے ماضی میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ’پی ٹی ایم کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بیرون ملک سے فنڈنگ ملتی ہے۔‘ پی ٹی ایم کی سرگرمیوں میں 2021 کے بعد کمی آئی اور انکے جلسے جلوس بھی محدود ہوتے گئے، لیکن جب بھی وہ جلسہ کرتے تو کثیر تعداد میں لوگ اس میں شریک ہوتے۔
اسی دوران پی ٹی ایم کی میڈیا کوریج پر بھی غیر اعلانیہ پابندی عائد کی گئی جس کے بعد اس نے اپنے بیانیے کی ترویج کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرنا شروع کر دیا۔ سوشل میڈیا پر مرکزی اور علاقائی سطح پر تنظیم سازی کی گئی، اور علاقائی سطح پر مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنائے گئے۔ تاہم اب وفاقی حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی لگانے کا اعلان کر دیا ہے۔