وہ دس دن

تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال قبل ملا تو وہ ایک شیخی خور انسان تھا‘ وہ لمبی لمبی ڈینگیں ماررہا تھا ’’میں نے لانگ آئی لینڈ میں پانچ ملین ڈالر کا فلیٹ خرید لیا‘ میں نے نئی فراری بک کروا دی‘ میں چھٹیوں میں بچوں کو ہونو لولو لے گیا‘ میں نے پچھلے سال ایدھی فاؤنڈیشن کو پانچ کروڑ روپے کا چیک بھجوا دیا اورآئی ہیٹ دس کنٹری‘‘ وغیرہ وغیرہ‘ اس کی باتوں میں شیخی‘ ڈینگ‘ بناوٹ اور نفرت سارے عناصر موجود تھے‘ میں آدھ گھنٹے میں اکتا گیا‘ مجھے اس کی رولیکس واچ‘ گلے میں دس تولے کی زنجیر‘ بلیک اطالوی سوٹ‘ ہوانا کا سیگار اور گوچی کے جوتے بھی تنگ کر رہے تھے‘ وہ سر سے لے کر پاؤں تک دولت کا بدبودار اشتہار تھا۔

وہ میرے دفتر آیا تو وہ پانی کی اپنی بوتل‘ کافی کا اپنا مگ اور اپنے ٹشو پیپر ساتھ لے کر آیا‘ وہ ہمارا منرل واٹر تک پینے کے لیے تیار نہیں تھا‘ وہ ہاتھ ملانے کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالتا تھا‘ ہاتھ باہر نکالتا تھا اور دونوں ہاتھ رگڑتا تھا‘ میں نے تھوڑا سا غور کیا تو پتا چلا اس نے جیب میں جراثیم کش کیمیکل رکھا ہوا ہے‘ وہ ہاتھ ملانے کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالتا تھا ‘ کیمیکل کی ٹیوب دبا کر مواد لگاتا تھا اور ہاتھ باہر نکال کر دونوں ہاتھ رگڑتا تھا اور اپنے ہاتھ اجنبی جراثیموں سے محفوظ کر لیتا تھا‘ وہ میرے دفتر کو بھی ناپسندیدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا‘ وہ آنکھیں چڑھا کر دائیں بائیں دیکھتا اور پھر برا سا منہ بناتا‘ وہ غیبت کا بھرا ہوا ڈرم بھی تھا۔

میں جس شخص کا نام لیتا تھا وہ اس کے خلاف مقدمے کھول کر بیٹھ جاتا تھا‘ میں جس مقام‘ جس شہر اور جس ملک کا تذکرہ کرتا تھا وہ اس کی منفی باتیں بیان کرنے لگتا ‘ وہ حس مزاح سے بھی عاری تھا‘ میں نے اسے جو بھی لطیفہ سنایا اس نے برا سا منہ بنا کر مجھے شرمندہ کر دیا‘ میں آدھے گھنٹے میں اس سے اکتا گیا‘ قدرت کا غیبی ہاتھ آیا‘ اس کا ’’گولڈ پلیٹڈ‘‘ موبائل فون بجا‘ وہ فون اٹھا کر کونے میں گیا اور فون ختم ہوتے ہی افراتفری میں میرے دفتر سے نکل گیا‘ میں نے چھت کی طرف منہ اٹھا کر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا‘ وہ چلا گیا لیکن پندرہ سال ہمارا ای میل ‘ ایس ایم ایس یا واٹس ایپ پر رابطہ رہا‘ یہ رابطہ بھی عید‘ شب برات یا یوم آزادی پر مبارک باد اور شکریے تک محدود تھا‘ مجھے بڑے عرصے بعد پتا چلا مبارک باد کی یہ ’’ای میلز‘‘ بھی وہ نہیں بھجواتا تھا‘ اس نے اپنے لیپ ٹاپ میں مبارک باد کا سافٹ ویئر لگا رکھا تھا‘ یہ سافٹ ویئر فہرست میں موجود لوگوں کو خود بخود پیغام بھجوا دیتا تھا‘ اس کے ایس ایم ایس بھی خود کار نظام کے تحت دنیا بھر میں پھیلے لوگوں تک پہنچ جاتے تھے۔

ہم پندرہ سال نہیں ملے‘ پندرہ سال طویل عرصہ ہوتا ہے‘ آپ اس عرصے میں بڑے سے بڑے حادثے‘ بڑے سے بڑے سانحے بھول جاتے ہیں‘ انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ پندرہ سال کوئی زبان نہ بولے تو 95 فیصد لفظ اس کی یاد داشت سے محو ہو جاتے ہیں‘ ہم پندرہ سال نہیں ملے لیکن میں اس کے باوجود اسے بھول نہ سکا‘ میں جب بھی رولیکس گھڑی دیکھتا ‘ میرے سامنے کوئی لانگ آئی لینڈ کا نام لیتا یا میں کسی شخص کو کیمیکل سے ہاتھ صاف کرتے‘ فرنچ منرل واٹر پیتے یا پھر شیخی مارتے دیکھتا تو مجھے بے اختیار وہ یاد آ جاتا اور میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکتا مگرکچھ عرصہ قبل پندرہ سال بعد اس سے دوسری ملاقات ہوئی تو وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ اس نے جینز کی عام سی پینٹ‘ ڈھیلا سا سویٹر‘ لمبا کوٹ‘ لانگ شوز اور سر پر اونی ٹوپی پہن رکھی تھی‘ وہ مسکرا بھی رہا تھا‘ لطیفے بھی سنا رہا تھا اور قہقہے بھی لگا رہا تھا۔

وہ اٹھارہ سو سی سی کی عام سی گاڑی سے اترا تھا‘ اس نے میرے دفتر کی گھٹیا چائے بھی پی لی اور وہ ہر شخص سے بلا خوف ہاتھ بھی ملا رہا تھا‘ میرے دفتر میں درجنوں لوگ آتے ہیں‘ میں نے آج تک کسی شخص کو اپنے چپڑاسی سے ہاتھ ملاتے نہیں دیکھا لیکن وہ چپڑاسی کے لیے بھی کھڑا ہوا‘ اس نے اس سے ہاتھ بھی ملایا اور اس کی خیریت بھی پوچھی‘ وہ ملک کے بارے میں بھی مثبت رائے کا اظہار کر رہا تھا‘ وہ دوگھنٹے میرے ساتھ بیٹھا رہا اور ان دو گھنٹوں میں اس نے کسی کی غیبت کی‘ کسی کے خلاف منفی فقرہ بولا‘ کوئی شیخی بھگاری‘ کوئی ڈینگ ماری اور نہ ہی اپنی کسی گاڑی‘ سفر اور فلیٹ کا ذکر کیا‘ میں نے اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’آپ کی کمپنی کیسی چل رہی ہے؟‘‘ اس کے جواب نے حیران کر دیا‘اس کا کہنا تھا‘ کمپنی کی گروتھ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ ہمیں امید ہے یہ اگلے سال امریکا کی پہلی ہزار کمپنیوں میں آ جائے گی‘ ہماری ملاقات کے دوران نماز کا وقت آیا تو وہ اٹھا‘ جائے نماز بچھائی اور نماز ادا کر کے واپس آ گیا۔

اس نے بتایا وہ دن میں دو بار وضو کرتا ہے اور یہ دو وضو پورا دن گزار دیتے ہیں‘میں اس کایا پلٹ پر بہت حیران تھا‘ میں اپنی حیرت پر قابو نہ رکھ سکا تو میں نے اس کایا پلٹ کے بارے میں پوچھ لیا‘ وہ مسکرایا اور نرم آواز میں بولا ’’ بھائی جاوید یہ سب میری زندگی کے دس دنوں کا کمال ہے‘ وہ دس دن آئے اور انھوں نے حیات کا سارا پیٹرن بدل دیا‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولا ’’مجھے ایک دن ٹریڈ مل پر بھاگتے ہوئے پیٹ میں درد ہوا‘ میں ڈاکٹر کے پاس گیا‘ ڈاکٹر نے دوا دی لیکن مجھے آرام نہ آیا‘ میں اگلے دن اسپتال چلاگیا‘ ڈاکٹر نے معائنہ کیا‘ خون اور پیشاب کے نمونے لیے‘ یہ نمونے لیبارٹری بھجوا دیے‘ خون کے نمونوں کے نتائج آئے تو پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی‘ میں لبلبے کے کینسر میں مبتلا تھا‘ میرے پاس زیادہ وقت نہیں تھا‘ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ گیا‘ میں اسپتال کے لان میں بینچ پر بیٹھ گیا اور حسرت سے دنیا کو دیکھنے لگا‘زندگی کے پیچھے زندگی بھاگ رہی تھی مگر میں اداس تھا‘ میرے اندر گہرائی میں کوئی چیز ٹوٹ رہی تھی‘ مجھے محسوس ہوا میری رگوں میں لہو نہیں کرچیاں ہیں اور یہ کرچیاں دل کی ہر دھک کے ساتھ آگے سرک رہی ہیں‘ میں بینچ سے اٹھا‘ اپنا موبائل فون توڑا‘ بینک سے پچاس ہزار ڈالر نکلوائے‘ اپنا پرس‘ بیگ اور لیپ ٹاپ گاڑی میں رکھا‘ گاڑی گھر بھجوائی‘ ائیر پورٹ گیا اور ٹکٹ خرید کر فیچی آئی لینڈ چلا گیا۔

میرا خیال تھا میرے پاس صرف دو مہینے ہیں اور میں نے ان دو مہینوں میں پوری زندگی گزارنی ہے‘میں نے زندگی میں پہلی بار ٹینٹ خریدا اور میں یہ ٹینٹ لے کر جنگلوں میں نکل گیا‘ میں نے چار دن جنگلوں‘ جھیلوں‘ آبشاروں اور سمندر کے اداس کناروں پر گزارے‘ میں اس کے بعد شہر کی رونق میں گم ہوگیا‘ میںنوجوانوں کے ساتھ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر ڈانس کرتا‘ سڑک کے کنارے اسٹالوں سے برگر خرید کر کھاتا‘صبح صادق کے وقت مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتا اور سورج کو اپنے سامنے اگتا ہوا دیکھتا‘ میں ننگے پاؤں ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا‘ میں لہروں کو ابھرتے‘ ساحل سے ٹکراتے اور واپس جاتے دیکھتا‘ میں اپنے پاؤں تلے ریت کو کھسکتے ہوئے محسوس کرتا‘ میں درختوں میں روشنی کے بنتے بگڑتے سائے بھی دیکھتا‘ میں نے زندگی میں پہلی بار صداؤں کے‘ آوازوں کے‘ گرتی ہوئی آبشاروں کے اور دوڑتے اڑتے پرندوں کے پروں میں بندھی زندگی دیکھی‘ میں نے زندگی میں پہلی بار زندگی کو محسوس کیا‘ میں پانی بھی پیتا تھا تو میں حلق سے لے کر معدے تک اس کی ٹھنڈک کو محسوس کرتا تھا‘ میں کھاتا تھا تومیں کھانے میں چھپے تمام ذائقے محسوس کرتا تھا۔

میں آنکھیں بند کرتا تھا تو اندھیرے میں چھپے رنگ محسوس کرتا تھا‘ میں اجنبیوں سے ملتا تھا تو مجھے ان کی اچھائیاں نظر آتی تھیں‘ میں اپنے دائیں بائیں اوپر نیچے دیکھتا تھا تو مجھے ہر چیز‘ ہر منظر اچھا لگتا تھا‘ مجھے زندگی میں پہلی بار دنیا کی کوئی برائی برائی‘ کوئی خامی خامی اور کوئی خرابی خرابی محسوس نہ ہوئی‘ مجھے دنیا ایک خوب صورت جزیرہ‘ ایک نعمت محسوس ہوئی‘ میں دس دن اس کیفیت میں رہا‘ میں نے دسویں دن اپنی بیوی کو فون کیا‘ وہ بہت پریشان تھی‘ وہ لوگ مجھے پوری دنیا میں ڈھونڈ رہے تھے‘ میری بیوی نے انکشاف کیا ’’ تمہاری میڈیکل رپورٹ غلط تھی‘ اسپتال نے خون کے نمونے تین مختلف لیبارٹریوں میں بھجوائے تھے‘ پہلی رپورٹ میں لبلبے کا کینسر نکلا جب کہ دوسری دونوں رپورٹیں نارمل ہیں‘ ڈاکٹر دوبارہ خون کے نمونے لینا چاہتے ہیں‘‘ میں یہ سن کر حیران رہ گیا‘ میں سیدھا فیچی کے اسپتال گیا‘ خون دیا‘ رپورٹ آئی تو میں اس میں بھی نارمل تھا‘ میں نے شکر ادا کیا اور امریکا واپس چلا گیا‘‘۔

وہ دوبارہ بولا ’’میں آج یہ سمجھتا ہوں‘ وہ رپورٹ قدرت کی طرف سے ’’ویک اپ کال‘‘ تھی‘مجھے اللہ تعالیٰ زندگی کی حقیقت بتانا چاہتا تھا اور میں یہ حقیقت جان گیا‘ میں آج یہ سمجھتا ہوں آپ جب تک زندگی کے ہر لمحے کو آخری سمجھ کر زندگی نہیں گزارتے آپ اس وقت تک زندگی کو اس کے اصل رنگوں میں محسوس نہیں کر سکتے‘ آپ کو اس وقت تک زندگی محسوس نہیں ہو سکتی‘‘۔

Check Also
Close
Back to top button