مغربی ممالک کو پہلگام حملے میں TTP کے ملوث ہونے کا یقین کیوں؟

سینیئر اینکر پرسن سہیل وڑائج نے انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 27 سیاحوں کے قتل کے حوالے سے مغربی ممالک بشمول امریکہ نے جو تحقیقات کی ہیں ان کے مطابق اس واقعے میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کا قوی امکان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں پاکستانی فوج نے تحریک طالبان کے 700 سے زیادہ جنگجوؤں کو ہلاک کیا جس کے بعد پہلگام حملے کا منصوبہ تیار کیا گیا تاکہ انڈیا پاکستان ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ جائیں اور پاک فوج پاک افغان بارڈر سے توجہ ہٹا کر پاک بھارت سرحد پر فوکس کر لے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ کرکٹ اور گرگٹ ملتے جلتے الفاظ ہیں۔ کاف کی جگہ گاف لگنے سے نہ صرف لفظ بدل جاتے ہیں بلکہ انکے معانی میں بھی زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔ انگریزی لغت میں کرکٹ ایک ایسے صاف ستھرے کھیل اور طرز زندگی کو کہتے ہیں جس میں کوئی ہیرا پھیری نہیں ہوتی۔ دوسری طرف گرگٹ ایک چھپکلی نما جانور کا نام ہے، جو افریقہ اور ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اس جانور کی خاص بات اس کا رنگ بدلنا ہے۔ حالات بدلیں تو گرگٹ نیلے اور سبز رنگ کا ہو جاتا ہے۔ رخ بدلنے کی صورت میں یہ پیلا، نارنجی اور سرخ رنگ بھی اوڑھ لیتا ہے۔ مجموعی طور پر گرگٹ کے متضاد رویے کرکٹ کے سیدھے اور صاف شفاف طرز زندگی سے متصادم ہیں۔ پاک بھارت حالیہ کشمکش میں کرکٹ اور گرگٹ جیسے دونوں رویے نظر آئے۔

سینیئر صحافی کا کہنا کہ گرگٹ جنگلوں میں پایا جاتا ہے، کشمیر کے جنگلوں میں پہلگام کے مقام پر دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو گرگٹ نے فوراً اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ لیکن پاکستان نے کرکٹ کھیلی اور کہا کہ وہ شفاف بین الاقوامی انکوائری کروانے کو تیار ہے۔ تاہم بھارت نہ مانا اور پاکستان پر حملے شروع کر دیئے۔ اس دوران دنیا کے کئی ممالک نے اپنے طور پر پہلگام واقعہ کی غیر جانبدارانہ انکوائری کروائی۔ اس حوالے سے اندرونی خبر یہ ہے کہ بین الاقوامی انکوائری میں ذمہ داری پاکستان پر نہیں پڑی بلکہ اس کا ذمہ دار کوئی اور نکلا ہے۔

سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ انکوائری کے نتائج پاکستان اور انڈیا دونوں سے شئیر کرتے ہوئے یہ حیرت ناک انکشاف کیا گیا کہ پہلگام دہشت گردی میں پاکستان کے خلاف نبرد آزما تحریک طالبان ملوث تھی۔ اس انکوائری میں کہا گیا کہ پاکستانی فوج نے حالیہ ہفتوں میں تحریک طالبان کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے سینکڑوں خوارج کو جہنم واصل کیا تھا، اس دباؤ سے تنگ طالبان نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے پرانے ساتھیوں سے رابطہ کر کے پہلگام میں دہشت گردی کی واردات کرائی۔ طالبان کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان اور انڈیا میں کشیدگی سے پاکستانی فوج کا طالبان سے فوکس ہٹ جائے گا اور وہ بھارتی سرحد کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ یوں تحریک طالبان کو پاک فوج کے دباؤ سے آزادی مل جائے گی۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پہلگام حملے کی بین الاقوامی انکوائری رپورٹ سے واقعی ثابت ہو رہا ہے کہ اس مرتبہ پاکستان نے کرکٹ کھیلی ہے اور اسکے موقف میں گرگٹ والا کوئی رنگ نہیں، البتہ مودی گرگٹ کی طرح مسلسل رنگ بدل رہے ہیں۔ وہ کرکٹ نہیں کھیل رہے اور سراسر نو بال کرا رہے ہیں۔ اس انکوائری رپورٹ کے آنے کے بعد سے پہلگام دہشت گردی کے کردار ہی بدل گئے ہیں، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دراصل پہلگام واقعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑائی کی ایک کوشش تھی جس کا فائدہ طالبان کو ہونا تھا۔ اس انکشاف نے پاک بھارت جنگ کو ٹالنے اور سیز فائر کی طرف بڑھنے میں مدد دی ہے۔ لیکن ایسے موقع پر پھر سے کرکٹ اور گرگٹ کے متضاد رویوں کا سامنا کرنا ہوگا۔

پاکستان اور بھارت کی لڑائیوں پر نظر ڈالیں تو ان میں کرکٹ کا رنگ کم اور گرگٹ کے رنگ زیادہ ہوتے ہیں۔ ہم جنگوں، لڑائیوں اور طعنوں میں تو ماہر ہیں لیکن امن و آشتی سے دور بھاگتے ہیں۔ یہاں جنگ باز، جنگ جو اور لڑائی بھڑائی کروانے والے سرحد کے دونوں طرف مقبول ہیں۔ اسکے برعکس دنیا بھر میں جنگ بازوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ دراصل صلح اور جنگ کے اصول اور معیار قطعی مختلف اور متضاد ہوتے ہیں، جنگ اور لڑائی میں الزام اور جھوٹ چلتا ہے، اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا معمول ہوتا ہے جبکہ کرکٹ میں سیدھے بلے کے ساتھ کھیلا جاتا ہے اور نو بال پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اسکے علاوہ کرکٹ کے اصولوں کو پامال کرنے والوں کو سزا دی جاتی ہے۔ لہٰذا اب جبکہ سیز فائر ہو چکا ہے تو پاکستان اور بھارت دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ گرگٹ والا کھیل بند کریں اور سیدھے بلے سے کرکٹ کھیلنا شروع کریں۔ اس خطے کے ایک ارب سے زائد عوام کی زندگیاں بہتر بنانے کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے۔

 پاکستان پر حملہ کرنے والی مودی سرکار نے اچانک گھٹنے کیوں ٹیکے؟

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ غیر جانبدار حلقوں میں یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی جنگ میں پاکستان فتح یاب ہو گیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان اس فتح کو برقرار کیسے رکھے؟ کیا ہم بھی بھارتی میڈیا کی طرح بڑھکیں ماریں اور نفرت میں ایک دوسرے پر چنگھاڑیں؟ میری ادنی رائے یہ ہے کہ ہمیں بھارت کی طرح گرگٹ جیسے رنگ بدل کر نہیں چلنا چاہئے بلکہ عاجزی اور انکساری اپنا کر صلح اور فتح کے بند مضبوط کرنے چاہئیں، ہمیں دوستی کا رویہ اپنانا چاہئے، ہم دونوں پڑوسی ہیں، دنیا میں دوست دشمن بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ اگر ہم یونہی جنگیں لڑتے رہے اور نفرت کی آگ کو بھڑکاتے رہے تو نہ تو بھارت ترقی کر سکے گا اور نہ ہی پاکستان معاشی خود مختاری حاصل کر سکے گا۔

Back to top button