بلوچستان کی دو اہم ہائی ویز 11 روز سے بند، تاجروں کو کروڑوں کا نقصان

بلوچستان میں دو اہم قومی شاہراہوں کی گذشتہ 11 روز سے بندش نے عوام کے علاوہ تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کی مشکلات میں بھی اضافہ کر دیا ہے، ٹرانسپورٹرز اور کاروباری طبقے کو پاکستان کو ایران سے ملانے والی شاہراہ اور کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی شاہراہ کی بندش سے یومیہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
اہم ترین قومی شاہراہوں کی بندش کے باعث تاجروں کو صرف کنٹینرز کے ڈیمریج چارجز کی مد میں ہی روزانہ ایک لاکھ 20 ہزار امریکی ڈالرز یعنی تین کروڑ 36 لاکھ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ دیگر مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ یاد رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی دیگر خواتین رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف 28 مارچ کو وڈھ سے کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا تھا، تاہم حکومت نے مظاہرین کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ چنانچہ بی این پی نے مستونگ میں لکپاس کے مقام پر دو بڑی اہم شاہراہوں کے سنگم پر دھرنا دے دیا۔ دوسری جانب بلوچستان حکومت نے بھی لانگ مارچ کے شرکا کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے لکپاس ٹنل میں کنٹینرز کھڑے کرنے کے علاوہ خندقیں کھود کر راستے بند کر رکھے ہیں۔ چنانچہ اس احتجاجی دھرنے اور حکومتی رکاوٹوں کی وجہ سے دو اہم ترین شاہراہیں 28 مارچ کی رات سے بند ہیں۔ ان میں پاکستان کو ایران سے ملانے والی شاہراہ این 40 اور کوئٹہ کو تجارتی شہر کراچی سے ملانے والی شاہراہ این 25 شامل ہیں۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر ایوب مریانی نے بتایا کہ ’این 40 شاہراہ کی بندش سے ایران کی سرحد پر 1200 سے زائد مال بردار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں جن میں 847 باؤزرز بھی شامل ہیں، جو ایل پی جی اور پیٹرولیم لے کر پاکستان آ رہی تھیں۔ ہر گاڑی پر روزانہ تقریباً 100 ڈالر کے کنٹینر ڈیمریج چارجز عائد ہو رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کوئٹہ میں این ایل سی ڈرائی پورٹ پر ایران جانے والی آلو اور چاول سے بھری 200 گاڑیاں بھی کھڑی ہیں جن میں موجود سامان جلد خراب ہو جانے والا ہے۔ ان اشیا کو مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ طلب نہ ہونے کی وجہ سے یہاں قیمتیں بہت کم ہیں۔
بلوچستان کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک حاجی مظفر علی لہڑی کا کہنا ہے کہ بدامنی اور راستوں کی بندش سے ٹرانسپورٹ کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔ ان کے مطابق ’گذشتہ تین ماہ سے ہمارا کاروبار متاثر ہے اور گذشتہ دو ہفتوں سے تو مکمل طور پر بند ہے۔ حاجی لہڑی کا کہنا تھا کہ ’مستونگ سے گزرنے والا اور کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والا راستہ سب سے مختصر اور اہم ترین ہے۔ یہاں سے ہماری روزانہ 12 سے 15 گاڑیاں چلتی تھیں لیکن اب صرف دو گاڑیاں سبی، جیکب آباد، سکھر اور اندرون سندھ سے گزرنے والے متبادل راستے سے جا رہی ہیں جو طویل اور مہنگا ترین پڑتا ہے۔ اس روٹ پر 200 لیٹر اضافی ڈیزل استعمال ہوتا ہے اور کرایہ تقریباً دو ہزار روپے بڑھ گیا ہے، اس لیے مسافر اس روٹ پر جانے سے گریز کر رہے ہیں۔
پنجاب حکومت نے غیر قانونی افغانوں کی ڈائر یکٹ ملک بدری شروع کردی
آل کوئٹہ تفتان بس یونین کے صدر حاجی ملک شاہ جمالدینی نے بتایا کہ کوئٹہ سے نوشکی، دالبندین، نوکنڈی، تفتان، ماشکیل اور خاران کے لیے روزانہ 100 سے زائد بسیں اور ویگن چلتی تھیں جو گذشتہ دو ہفتوں سے کھڑی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بیشتر بس مالکان نے قرض لے کر تین سے ساڑھے تین کروڑ روپے کی ایک ایک بس خریدی لہازا انہیں ماہانہ 8 لاکھ روپے قسط ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بس اڈوں کے کرایے، گاڑیوں کی مرمت اور عملے کی تنخواہیں بھی آہستہ آہستہ ٹرانسپورٹرز پر بوجھ بن گئی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہم جس روٹ پر ٹرانسپورٹ چلاتے ہیں وہ دور دراز علاقے ہیں جہاں سے لوگ علاج معالجے، تعلیم اور دوسری بنیادی ضروریات کے لیے کوئٹہ آتے ہیں، لیکن گذشتہ 10 دنوں سے مریض بھی سفر نہیں کر پا رہے جس سے عام مسافر سخت مشکلات کا شکار ہیں۔
تاجر رہنما ایوب مریانی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں دو اہم ترین قومی شاہراہوں کی بندش نہ صرف مقامی بلکہ ملکی اور علاقائی تجارت پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے۔ لاکھوں افراد کا روزگار متاثر ہے جبکہ تاجروں کو بھاری مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر راستے کھلوائے اور جاری احتجاج کا پرامن حل نکالے۔