آئی ایس آئی چیف عاصم ملک کے عہدے میں توسیع کا مطلب کیا ہے؟

 

 

 

بی بی سی اردو نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کو عہدے میں توسیع دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے رواں مہینے اپنے عہدے سے ریٹائر ہونا تھا۔ تاہم عسکری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ جنرل عاصم ملک نہ صرف بطور آئی ایس آئی چیف کام جاری رکھیں گے بلکہ وفاقی حکومت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیتے رہیں گے۔

 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عاصم ملک کے عہدے میں توسیع کا مطلب یہ ہے کہ ہائبرڈ سسٹم کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا۔ اسکے علاوہ جنرل عاصم ملک کو توسیع ملنے سے ڈی جی کاؤنٹر انٹیلیجنس میجر جنرل فیصل نصیر عرف جنرل ہیری کے آئی ایس آئی چیف بننے کا امکان بھی ختم ہو گیا ہے۔

 

پاکستانی حکومت یا فوج کی جانب سے تاحال سرکاری سطح پر جنرل عاصم ملک کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

یاد رہے کہ جنرل عاصم ملک نے 30 ستمبر 2024 کو بطور آئی ایس آئی چیف عہدہ سنبھالا تھا۔ ان سے قبل لیفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) ندیم انجم اس عہدے پر فائز تھے۔ انھیں بھی نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے مدت ملازمت میں توسیع دی تھی۔

 

جنرل عاصم ملک کا تعلق ایک عسکری خاندان سے ہے اور ان کے والد لیفٹیننٹ جنرل (ر) جنرل غلام محمد ملک 90 کی دہائی کے اوائل میں راولپنڈی کے کور کمانڈر رہ چکے ہیں۔ یہ وہی زمانہ تھا جب وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف ایک ناکام فوجی بغاوت ہوئی تھی جس پر میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور بریگیڈیئر مستنصر باللہ سمیت متعدد افسران کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل بھی ہوا تھا۔ بعد ازاں 1999 میں جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد نواز شریف سے استعفی لینے کے لیے جو فوجی وفد وزیراعظم ہاؤس گیا تھا اس کی سربراہی تب کے کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹینٹ جنرل غلام محمد ملک کر رہے تھے۔

 

پاکستان آرمی کی بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے اعزازی شمشیر کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ وہ امریکہ کے فورٹ لیون ورتھ آرمی کالج کے علاوہ برطانیہ کے رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔ یہ وہی برطانوی کالج ہے جہاں سے پاکستان کی برّی فوج کے سابق سربراہان پرویز مشرف، اشفاق کیانی اور راحیل شریف بھی کورس کر چکے ہیں۔ انھیں بلوچستان کے امور پر دسترس رکھنے والے افسر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اپنے فوجی کریئر میں انھوں نے دالبندین میں 41 ویں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ کرنے کے علاوہ وزیرستان میں انفنٹری بریگیڈ کی بھی کمانڈ کی ہے۔ عاصم ملک اسلام آباد کی نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں ’وار ونگ‘ کے چیف انسٹرکٹر رہ چکے ہیں۔ وہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ میں بھی بطور انسٹرکٹر تعینات رہ چکے ہیں۔

 

جنرل عاصم ملک ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کے عہدے پر بھی کام کر چکے ہیں اور بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تعیناتی سے قبل وہ ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔ یہ ادارہ فوج میں ڈسپلن اور ویلفیئر کا ذمہ دار ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل سمیت گذشتہ چند برس میں پاکستانی فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی اور ایسے دیگر درجنوں کیسز کی تحقیقات ایڈووکیٹ جنرل کے ماتحت جج ایڈجوٹنٹ جنرل برانچ نے ہی کی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاک فوج کے ایک افسر نے بتایا کہ عاصم ملک فوج میں ایک بااصول اور ڈسپلن کے پابند افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ بطور ایڈجوٹنٹ جنرل ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں اور شہدا کے اہلخانہ کو ریلیف دینے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔

 حکومت کا ڈی جی آئی ایس آئی کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ

جنرل عاصم ملک نے گذشتہ سال پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری لانے کے لیے بنائے گئے منصوبے ’ایس آئی ایف سی‘ کے تحت ملک میں زرعی اصلاحات کے لیے ’گرین انیشی ایٹو‘ پروگرام کی منصوبہ بندی کی اور بحیثیت ایڈجوٹنٹ جنرل اس کے منتظم رہے ہیں۔

 

Back to top button