جنرل عاصم منیر اور ٹرمپ ایران کے معاملے پر کیا کرنے جا رہے ہیں؟

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کو سفارتی حلقوں میں پاکستان کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب خطے میں ایران اور اسرائیل ایک دوسرے پر میزائیلوں سے حملہ آور ہیں اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگلے مرحلے میں بھارت اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اس ملاقات کے بعد یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ شاید جنرل عاصم منیر ایران کے معاملے پر ثالثی کے لیے امریکہ کی مدد بھی کریں۔

اگرچہ اب تک پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ یعنی آئی ایس پی آر یا امریکی حکام کی جانب سے اس ملاقات کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور نہ ہی اس ملاقات کا ایجنڈا بتایا گیاہے، تاہم فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات کے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت سی آرا سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ صارفین کا ماننا ہے کہ جنرل منیر سے ملاقات کے بعد ایران کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا لہجہ کچھ نرم ہوا ہے۔ ایک صارف نے لکھا ’ایسا تاثر مل رہا ہے جیسے جنرل عاصم منیر نے ایران بارے امریکی صدر کے سامنے واضح مؤقف اختیار کیا اور ٹرمپ نے نہ صرف اسے سنا بلکہ اسے سمجھا بھی۔۔۔ جو ایک غیرمعمولی بات ہے۔‘

یاد رہے کہ جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی پاکستانی آرمی چیف سے ایران کے حوالے سے بھی بات ہوئی لیکن وہ ایرانی صورتحال پر خوش نہیں تھے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جنرل عاصم منیر ایران کو کئی دوسرے لوگوں سے بہتر جانتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عاصم منیر کے ساتھ ملاقات کے بعد ایران بارے ٹرمپ کی گفتگو حیرت انگیز طور پر متوازن اور سنجیدہ تھی، وگرنہ موصوف عام طور پر جارحانہ اور غیر سنجیدہ بیانات دے رہےتھے۔ لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایران بارے جنرل عاصم منیر کا موقف سننے کے بعد اپنی گفتگو کا لہجہ بدلا ہے۔‘

معروف مصنف اور تجزیہ نگار شجاع نواز نے ایکس پر ٹرمپ اور جنرل عاصم کی ملاقات کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’یہ ٹرمپ کے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ عاصم منیر کے حالیہ دورۂ تہران سے سیکھیں اور ایران کے خلاف جنگ کی طرف نہ بڑھیں۔ ان کہنا تھا کہ انسداد دہشتگردی کے شعبے میں پاکستان کے تعاون کو سراہا جائے گا تاہم جنرل عاصم منیر کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کو امریکہ جیسے دھوکے باز ’آقا نہیں، بلکہ قابل بھروسہ دوستوں‘ کی ضرورت ہے۔‘

محمد تقی نام صارف نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ ’فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی ملاقات میں فائدہ کس کا ہوا، یہ دیکھنا باقی ہے۔ البتہ یہ طے ہو گیا کہ نقصان عمران خان اور پی ٹی آئی سے منسلک ان پاکستانی امریکیوں کا ہوا ہے جنھوں نے دسیوں لاکھوں ڈالرز واشنگٹن میں عاصم منیر کے خلاف لابی کرنے پر خرچ کیے۔‘ صحافی کامران یوسف نے تبصرہ کیا کہ ’انڈیا کی جانب سے پاکستان کو دہشتگردی سے جوڑنے کی تمام کوششیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد نہ تو پہلگام حملے کا ذکر کیا اور نہ ہی انڈین خدشات کو اہمیت دی، بلکہ انھوں نے جنگ سے گریز پر پاکستانی فوج کی تعریف کی۔ ٹرمپ نے کہا: میں ان سے ملاقات کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا ہوں۔‘

بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جب بھی امریکہ اور ایران میں ثالثی ہو گی، پاکستان ضرور اس میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کرے گا۔ دوسری طرف جنگ ہو یا لنچ، پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کا میمز شیئر کرنے کا سلسلہ نہیں رکتا۔ ایک صارف نے ٹرمپ کی الیکشن کیمپین کی ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ میک ڈونلڈ کے کچن میں کام کرتے نظر آئے تھے اور لکھا ’صدر ٹرمپ خود کچن میں جنرل عاصم منیر کے لیے دوپہر کا کھانا تیار کر رہے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی چیز ہے۔‘ شبیر بھٹہ نامی ایک اور صارف نے لکھا کہ امریکی صدر اور جنرل عاصم منیر کی ملاقات نے عمران خان کی رہائی کی امیدوں پر بری طرح پانی پھیر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدور کی طرح صدر ٹرمپ بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے دوستی رکھنا چاہیں گے، بجائے کہ جیل میں بند ایک ایسے شخص کا ساتھ دیں جو روزانہ فوجی قیادت پر بہتان تراشی کرتا ہے۔

Back to top button