آرمی ترمیمی ایکٹ متفقہ طور پر منظور کروانے کی کوششیں ناکام

پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے آرمی ترمیمی ایکٹ کو متفقہ طور پر پاس کروانے کی کوششیں تب ناکام ہوگئیں جب جمیعت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور پشتون تحفظ موومنٹ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے بل کے خلاف اسمبلی سے واک آؤٹ کیا اور ایوان چھوڑنے سے پہلے ترمیمی ایکٹ کی کاپیاں پھاڑ کر احتجاجا سپیکر کے ڈیسک کی طرف اچھال دیں۔
چونکہ یہ مناظر پاکستان ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہو رہے تھے چنانچہ فوری طور پر پی ٹی وی کی نشریات معطل کر دی گئی تاکہ عوام ترمیمی ایکٹ کی دھجیاں بکھرتے ہوئے نہ دیکھ سکیں۔ تاہم پاکستانی عوام نے ٹی وی پر براہ راست جمہوریت اور جمہوری اصولوں کی دعویدار مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے اصولوں کی دھجیاں بکھرتے ضرور دیکھیں۔
آرمی ترمیمی ایکٹ پاس ہونے کے بعد وزیراعظم کی غیر منتخب مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اسے قومی مفاد اور جمہوریت کی جیت قرار دیا جبکہ ایوان سے واک آؤٹ کرنے والی جماعتوں کی لیڈرشپ نے اسے سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں جمہوریت کا شرمناک قتل قرار دیا۔ فردوس عاشق نے کہا کہ آج کا دن حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے لیے باہمی اتحاد کے حوالے سے ایک تاریخ ساز دن ہے جبکہ جمیعت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت نے اس دن کو جمہوریت کے لیے تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا۔
یاد رہے کہ ماضی میں جمیعت علماء اسلام اور جماعت اسلامی نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے جنرل مشرف کی طرف سے کی جانے والی آئینی ترامیم کو تحفظ دینے کے لیے ق لیگ کے ساتھ ملکر پارلیمنٹ سے پاس کروایا تھا جبکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے اس عمل کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی لیکن پھر تاریخ کا پہیہ ایسا گھوما کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور نون لیگ اصولوں کا سودا کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہوگیئں اور جماعت اسلامی اور جمیعت علماء اسلام نے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔
یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری قومی مفاد میں ضروری ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ یہ سپورٹ حاصل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے نون لیگ کی قیادت کو تاریخ ساز ریلیف دلوایا اور عدالت سے سزا یافتہ میاں نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دلوائی جس کی پاکستانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بعد ازاں لندن میں اسٹیبلشمنٹ اور میاں صاحب کے درمیان باقی معاملات طے ہوئے جس کے بعد نون لیگ نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے پھرتے ہوئے بوٹ کی عزت کرنے کا فیصلہ کیا۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کو بھی ریلیف فراہم کیا گیا اور اسے جیلوں سے نکل کر ہسپتال جانے کی اجازت ملی۔ اس کے بعد وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ پی پی پی نے بھی اپنے اصولوں سے پھرتے ہوئے آرمی ترمیمی ایکٹ کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے ترمیم کی حمایت کا فیصلہ پارٹی کی پیش کردہ کچھ تبدیلیوں سے مشروط کیا گیا تھا، لیکن 7 جنوری کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں بغیر کسی تبدیلی کے پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کا اعلان کر دیا گیا۔ یعنی ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔
تاہم آرمی ترمیمی ایکٹ قومی اسمبلی سے منظور ہو جانے کے بعد وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ آج کی ترمیم کے بعد اب وزیراعظم عمران خان آرمی چیف کو کسی بھی وقت ہٹا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 243 وزیراعظم کو اب یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی آرمی چیف کو ہٹا یا لگا سکتے ہیں۔ تاہم فواد چوہدری یہ دعوی کرتے ہوئے بھول گئے کہ یہ ترمیم آئین میں آرمی چیف نے کروائی ہے وزیراعظم نے نہیں۔ فواد چوہدری شاید یہ بھی بھول گئے کہ ماضی میں جب وزیراعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹایا تھا تو ردعمل میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹ کر وزیراعظم کو اٹک جیل میں بند کر دیا تھا۔