اپنی سیاست بچانے کے لیے مریم نواز کو کون سی جنگ جیتنا ہوگی ؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز کو بھی ویسے ہی دن رات ایک کرتے ہوئے سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کی جنگی بنیادوںہر مہم شروع کرنا ہو گی جیسے ان کے چچا شہباز شریف نے ڈینگی مچھر پر قابو پانے کے لیے کی تھی اور سرخرو ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں کامیابی حاصل کر کے مریم نواز نہ صرف ایک بڑا عوامی مسئلہ حل کر سکتی ہیں بلکہ اپنا سیاسی مستقبل بھی تابناک بنا سکتی ہیں۔
اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ماحول اور ثقافت کے حوالے سے اچھا خاصا شعور رکھتی ہیں، سینئر وزیر مریم اورنگ زیب نے ماحولیات کی تعلیم بیروں ملک سے حاصل کر رکھی ہے اور وہ عرصہ دراز تک ماحولیات اور جنگلی حیات سے متعلق این جی اوز میں بھی کام کرتی رہی ہیں، لہازا یہ ان دونوں کا امتحان ہے کہ سموگ کے بحران کو سنہری موقع جان کر اس کا فوری حل نکالیں، ہو سکتا ہے کہ اسی ایک کا۔ سے انہیں سیاست میں بڑا نام مل جائے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اکثر بڑے لیڈر بحرانوں میں ہی پرورش پاتے ہیں، اپنے عوام کو بحران سے نکالنے والے ہمیشہ کےلیے محبوب لیڈر بن جاتے ہیں۔ کسی بھی حکمران کے طرز حکمرانی کی اصل آزمائش سیاسی بحران اور میدا جنگ میں ہوتی ہے۔ جب ڈینگی بحران آیا تو شہباز شریف نے بطورِ وزیر اعلیٰ پنجاب دن رات وقف کر دیا تھا، وہ منہ اندھیرے اٹھ کر اس مسئلے پر اجلاس بلا لیتے تھے۔ ہر گھر میں سرخاری ٹیم چیک کرتی کہ کہیں پانی کی ٹونٹی تو نہیں بہہ رہی، انہوں نے سری لنکا سے خصوصی ماہرین کی ٹییں بلوا کر ڈینگی کو روکنے کا منصوبہ بنایا۔ اس معاملے میں وہ مرد بحران ثابت ہوئے اور بالآخر انہوں نے ڈینگی کے دانت کھٹے کر دیئے۔ ان کے اقدامات اس قدر موثر اور دیر پا ہیں کہ اب بھی ڈینگی کی ٹیمیں گھر گھر چیکنگ کر رہی ہوتی ہیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اپنے چچا شہباز شریف کے نقش قدم پر جلتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو بھی پاکستان واپس آتے ہی اپنی ترجیحی فہرست میں سموگ کو شامل کرنا چاہیے، انہیں سارے کام چھوڑ کر دن رات سموگ کے خاتمے پر فوکس کرنا چاہیے کیونکہ اگر کل کو پنجاب میں سموگ سے اموات شروع ہو گئیں تو ان کا طرز حکمرانی چیلنج ہو جائے گا۔ اگرچہ مریم نے سموگ کے خاتمے کےلیے بہت سے اقدامات کئے ہیں لیکن وہ ناکافی ہیں اور ان سے فی الحال سموگ میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں مریم نواز کو یاد رکھنا چاہیے کہ صرف کھوکھلے بیانات سے سموگ کی خون آشام بلا ٹلنے والی نہیں، اسے دو بدو لڑائی سے شکست دینا ہو گی اور یہ لڑائی لڑنے کے لیے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے نظر آنا ہوگا۔ اگر مریم نواز اس جنگ کی سالار بن گئیں تو نہ صرف وہ سموگ کو شکست دے دیں گی بلکہ ہوسکتا ہے ان کے سیاسی مخالفوں کو بھی شکست یو جائے۔ لیکن اگر مریم اس جنگ میں ناکام رہیں تو ان کا سیاسی مستقبل بھی مخدوش ہو جائے گا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ سموگ فی الحال وہ واحد موضوع ہے جس پر ابھی تک یہ سیاست نہیں ہوئی کہ اس کا ذمہ دار نواز شریف ہے یا عمران خان؟ اسکی وجہ پیپلز پارٹی ہے یا پھر تحریک انصاف؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب سموگ کے ذمہ دار ہیں۔ ہم سب کے چولہے، ہماری موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں، فصلوں کی آگ کا دھواں، صنعت اور بھٹوں کا فضلہ اور خوفناک دھواں اور پھر سب سے بڑھ کر ہماری دہائیوں کی لاپرواہی اصل وجوہات ہیں۔ جن سے آہستہ آہستہ اس عفریت نے آ کر ہم سب کو دبوچ لیا ہے۔
سینیئر صحافی یاد دلاتے ہیں کہ ہندوستان کا سب سے بڑا بادشاہ مغلِ اعظم جلال الدین اکبر تھا جس کی سلطنت کی سرحدیں نیپال سے لے کر سنٹرل ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں، تب دارالحکومت فتح پور سیکری تھا لیکن اکبر سولہ سال تک لاہور میں مقیم رہا۔ فتح پور سیکری میں پانی کم اور کڑوا تھا، جبکہ لاہور میں پانی کی فراوانی تھی اور یہ صاف اور میٹھا تھا، لاہور کی آب و ہوا بھی صاف تھی۔ لاہور شہر میں باغات تھے اور اسکے ارد گرد جنگل تھے جن میں ہرن اور دیگر جانور پائے جاتے تھے،۔
پاکستانی انکار کے باوجود چین کا اپنی سکیورٹی پاکستان لانے پر اصرار
سہیل وڑائچ کے بقول یہ سب سولہویں صدی کا ذکر ہے اور آج 21ویں صدی کا جدید پنجاب اور لاہور سموگ، دھند، ماحولیاتی آلودگی اور ڈینگی کی لپیٹ میں ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں موجود گھنے جنگل کاٹ دیے گئے، سر سبز باغات ہائوسنگ سوسائٹیز کی نذر ہو گئے، اب بادامی باغ، بچہ اور منشی لدھا باغ کے صرف نام باقی بچے ہیں، ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ کبھی نہ کبھی تو سامنے آنا ہی تھا اور سموگ۔کی صورت میں آ بھی چکا ہے۔
سینیئر صحافی یاد دلاتے ہیں کہ نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے دور میں سموگ ہر قابو پانے کے لیے سکول اور کالجز بند کئے گئے، اینٹوں کے بھٹوں اور فصلوں کی باقیات کی تلفی کے حوالے سے سخت اقدامات کئے گئے، دو تین روز کےلیے گاڑیاں بھی بند کی گئیں، مصنوعی بارش تک برسائی گئی مگر بالآخر نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات والا نکلا۔ حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ سموگ بارے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اب تک اس مسئلے پر تحقیق نہ تو مکمل ہے اور نہ ہی درست ہے۔ اگر کسی کو سموگ کی اصل وجہ کا ہی علم نہیں تو اس کا تدارک کیا ہو گا؟