پی ٹی آئی کے 2024 کے احتجاج کا انجام بھی 2014 جیسا کیوں ہو گا؟
2014 میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر نواز شریف حکومت کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک میں 126 دن کا دھرنا دینے کے باوجود عمران خان وفاقی حکومت گرانے میں ناکام رہے تھے لہٰذا سال 2024 میں بھی ان کی فائنل احتجاجی کال کے نتیجے میں کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید اپنے تازہ تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں دھرنے کی ” فائنل کال” تو دے دی ہے لیکن وہ بھول گئے کہ 2014 میں تب کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت کے باوجود وہ 126 روز دھرنا دینے کے باوجود ناکام واپس لوٹے تھے۔ نصرت جاوید کے بقول اپنی بہن علیمہ خان کے ذریعے خان نے جو ”فائنل کال“ دی ہے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائے گی۔ تحریک انصاف کے بانی نے اپنے عاشقان کو حکم دیا ہے کہ وہ ”آخری معرکہ“ کے لئے رواں مہینے کی 24 تاریخ کے دن گھروں سے باہر نکل آئیں اور اسلام آباد کا رخ کریں اور تب تک واپس نہ جائیں جب تک تحریک انصاف کے چار مطالبات پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
ان چار نکات میں 26 ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ سرِ فہرست ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ اسلام آباد پہنچ کر 2014ء کے نتائج دہراتے ہوئے تحریک انصاف کے کارکن حقیقتاً اپنے قائد کی فوری رہائی ہی کو بنیادی مطالبہ قرار دیں گے۔ یاد رہے کہ 2014ء میں اسلام آباد آنے سے قبل عمران خان نے اس کے لئے بھرپور ہوم ورک کیا تھا۔ اس سے پہلے 2013ء کے الیکشن سے قبل وہ حادثے کا شکار ہو کر ہسپتال تک محدود ہو گئے تھے۔ صحت یاب ہونے کے بعد قومی اسمبلی آئے تو فقط چار حلقوں کے انتخابی نتائج کے جائزے کا مطالبہ کیا۔
پھر چار حلقوں سے بات ”35 پنکچروں“ تک پہنچی۔ دریں اثنا کینیڈا میں براجمان ہوئے طاہر القادری بھی ان کے ”کزن“ بن کر ”سیاست نہیں ریاست بچانے“ کے لئے پاکستان آ گئے۔ دونوں ”کزن“ لاہور سے چلے اور تمام رکاوٹیں بآسانی عبور کرتے ہوئے اسلام آباد کے ”ریڈزون“ میں داخل ہو گئے۔ یہاں پڑاﺅ کے دوران پی ٹی وی پر حملہ بھی ہوا۔ قومی اسمبلی، سپریم کورٹ اور وزیر اعظم ہاﺅس کی عمارتیں ہمہ وقت ہنگامی حالت میں مقید ہو کر رہ گئیں۔ طاہر القادری کے کارکنوں نے سو سے زیادہ دن گزر جانے کے بعد اپنے لئے ریڈزون میں قبریں کھودنا شروع کر دیں۔ مگر چند دن بعد پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی کا ہولناک واقعہ ہو گیا۔ اس کی وجہ سے دھرنا ختم ہوا اور عمران خان نواز شریف حکومت سے جان چھڑانے کے لئے پانامہ دستاویزات کے منظر عام آنے تک مایوس و بے چین نظر بیٹھے رہے۔
نصرت جاوید کے مطابق 2014ء کے دھرنے کی ناکامی یاد دلانے کی وجہ درحقیقت اس کیلئے ہونے والی طویل تیاری تھی۔ لیکن کئی ماہ کی بھرپور تیاری کے باوجود وہ دھرنا اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ 24 نومبر کے دھرنے کی جو کال دی گئی ہے اس کے لئے بظاہر مناسب تیاری بھی نہیں ہوئی۔ چند ہی ہفتے قبل خیبر پختونخواہ سے جذباتی کارکنوں کا ایک بڑا لشکر لے کر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اسلام آباد آئے تھے۔ مگر وہاں پہنچ کر موصوف ”غائب“ ہو گئے اور مختلف صوبوں سے آئے تحریک انصاف کے بے شمار کارکن ریڈزون میں پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس کا سامنا کرتے رہے۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ 9 مئی 2023ء کے افسوسناک واقعات کے بعد سے تحریک انصاف کے نمایاں کارکن خیبرپختونخواہ کے علاوہ دیگر صوبوں میں انتہائی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ عمران خان کی رہائی کی خاطر پنجاب کے کسی بھی شہر میں ہوا جلسہ مقامی قیادت کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے قومی اسمبلی کے لئے تحریک انصاف کی حمایت سے منتخب ہوئے اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں رہنے کے بجائے اسلام آباد کے ان فلیٹوں تک محدود رہتے ہیں جو منتخب نمائندوں کے لئے تعمیر ہوئے ہیں۔ مقامی قیادت کی عدم موجودگی میں کارکنوں سے یہ امید باندھنا غیر منطقی ہونے کے علاوہ زیادتی بھی ہے کہ وہ ازخود گھروں سے نکلیں اور کسی نہ کسی طرح اسلام آباد پہنچ کر یہاں سے واپس جانے کا نام نہ لیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ کارکنوں کو ان کے گھروں سے اسلام آباد لانے کے لئے بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لئے بنیادی ضرورت ٹرانسپورٹ ہے جس کے حصول کیلئے سرمایہ درکار ہے۔ سرمایہ میسر ہو بھی جائے تو کارکنوں کو مختلف شہروں سے کاررواں کی صورت اسلام آباد تک پہنچانا ان دنوں ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ لشکر کی صورت فقط ایک بار پھر علی امین گنڈاپور ہی پشاور سے اسلام آباد آ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان کے لائے قافلے کو ااٹک پر روک لیا جاتا ہے۔ آخری مرتبہ یہ خدشہ بھی شدید تر ہو گیا تھا کہ معاملہ حد سے بڑھا تو ”مقابلہ“ تحریک انصاف کے کارکنوں اور پنجاب پولیس کے مابین ہی محدود نہیں رہے گا اور بالآخر وہ مقام بھی آ سکتا ہے جہاں دونوں صوبوں کی پولیس آنسو گیس اور گولیاں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیں۔
نصرت جاوید کے بقول اسی امکان سے گھبراکر علی امین گنڈاپور ڈرامائی انداز میں اٹک کے قریب اپنے قافلے کو چھوڑ کر ”اچانک“ اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع خیبرپختونخواہ ہاﺅس پہنچ گئے۔ یہاں چند گھنٹے گزارنے کے بعد وہ ”غائب“ ہو گئے اور کئی گھنٹوں تک پھیلے تذبذب کے بعد بالآخر پشاور پہنچ کر وہاں ہنگامی طورپر بلائے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں نمودار ہو گئے۔ نصرت کہتے ہیں میں یہ سمجھنے میں قطعاََ ناکام ہو رہا ہوں کہ اب کی بار گنڈاپور کس طرح اپنے لشکر کی اسلام آباد آمد یقینی بنائیں گے اور ہزاروں افراد کی رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست کر پائیں گے۔ تحریک انصاف کے ذرائع بتا رہے ہیں کہ خان صاحب سے اڈیالہ میں ملاقاتیں کرنے والوں کی اکثریت نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ”فائنل کال“ دینے سے قبل تحریک انصاف کے رہ نماﺅں اور مقامی قیادتوں کو چند ہفتوں تک تیاری کا موقع دیں۔ اسلام آباد آنے کے لئے 24 نومبر کے بجائے 25 دسمبر کی تاریخ مناسب بتائی گئی۔ قائد اعظم کے یوم پیدائش کو ”آخری معرکے“ کے لئے تجویز کرنے کے علاوہ مشورہ خان صاحب کو یہ بھی دیا گیا کہ وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو حکم دیں کہ وہ 20 جنوری 2025ء کے روز اسلام آباد پہنچیں۔ اس روز امریکہ کے نومنتخب صدر ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف لینا ہے۔ اس روز اگر عاشقان عمران لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد پہنچ کر اسے ”التحریر سکوائر“ میں تبدیل کر دیں تو ٹرمپ فون اٹھا کر حکومتِ پاکستان سے ان کی رہائی کا مطالبہ کرنے میں آسانی محسوس کر سکتا ہے۔
لیکن خان صاحب نے اپنی جماعت کی جانب سے تجویز کردہ دن رد کر کے ازخود 24 نومبر کا انتخاب کیا ہے۔ اس دن کا انتخاب انہوں نے کیوں کیا ہے؟۔ اس سوال کا جواب ان کے قریب ترین شخص کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔ لیکن حکومت کو دس دن مل گئے ہیں جن کے دوران وہ تحریک انصاف کے ممکنہ دھرنے کو ناکام بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہ کرے گی۔