ریاست کن عمرانڈو صحافیوں اور اینکرز کو رسوا کرنے جا رہی ہے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے میڈیا مخالف نیا قانون آنے کے بعد عوام جلد ہی عمرانڈو پن کا شکار ہونے والے نامی گرامی صحافیوں اور اینکرز کو ریاست کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتا دیکھیں گے۔ لہازا میری دیانتداری سے کوشش ہوگی کہ میں شترمرغ کی طرح ریت میں سر دبائے حقائق کو نظرانداز کرتا رہوں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میرے بہت سے جاننے والے پوچھ رہے ہیں کہ میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کروائے گے نئے پیکا قوانین کے بارے میں کچھ لکھ کیوں نہیں رہا حالانکہ میری صحافی برادری انے خلاف سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ انکا کہنا یے کہ میں نے ’’آزادی صحافت‘‘ کی جدوجہد سے ایسی بے اعتنائی کبھی برتی نہیں لہازا اب کی بار خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔
ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میں آج نہایت عاجزی مگر ایمانداری سے اعتراف کرتا ہوں کہ عمر کے آخری حصے میں تھک گیا ہوں۔ مجھے عمر بھر کا سفر رائیگاں محسوس ہوتا ہے۔ میں صحافت کے علاوہ رزق کمانے کے کسی اور ذریعے سے واقف ہی نہیں۔ لطیفہ مگر یہ بھی ہوا کہ 1975ء سے آج تک میں کسی بھی نوکری پر ٹک نہیں پایا۔ اس کی وجہ زیادہ تنخواہ لینے کی خواہش نہیں بلکہ اس ادارے کی مجبوری رہی جو میری دی گئی خبروں اور کالموں کی وجہ سے عتاب شاہی کا نشانہ بن جاتے تھے۔ میں جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگتے ہی ملک کے کئی شہروں میں جاکر صحافیوں کے احتجاج میں شریک ہوتا رہا۔ اسی دور میں ہمارے چار ساتھیوں کو برسرعام ٹکٹکی پر باندھ کر کوڑے بھی لگائے گئے تھے۔ ہم مگر ڈٹے رہے اور بالآخر 1985ء میں ہوئے غیر جماعتی انتخابات کی بدولت قائم ہوئی ’’جمہوری حکومت‘‘ نے صحافت کو نہ صرف تھوڑا آزاد کیا بلکہ اسے معاشی اعتبار سے پھلنے پھولنے کے امکانات بھی فراہم کئے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں صحافت کے ان ’’اچھے دنوں‘‘ ہی میں ہمیں نہایت ہوشیاری سے حکمرانِ وقت نے ’’صحافیوں کی ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ بنانے کی راہ دکھائی۔ پلاٹوں کے بعد ’’لفافوں‘‘ کا ذکر بھی شروع ہو گیا۔ پلاٹ اور لفافے بٹ گئے تو حکمرانوں نے اپنی پسند کی ’’صحافت‘‘ کو پروان چڑھانے کے سو ڈھنگ سیکھ لئے۔ تاہم میری بدقسمتی رہی کہ اس بہتی گنگا میں بھی اچھی طرح ہاتھ نہ دھو سکا۔ برسوں کی مشقت کی وجہ سے جو مہارت نصیب ہوئی تھی اس کی بدولت تھوڑی شہرت ملی تو صحافت کے بڑے اداروں سے نسبتاََ بہتر اور اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ ’’بروقت‘‘ تنخواہ ملنا شروع ہوگئی۔ اب کرائے کے مکان میں رہتے ہوئے دل گھبراتا نہیں تھا۔
انکا کہنا یے کہ میری بقیہ زندگی شاید قناعت بھرے دل کے ساتھ گزرہی جاتی۔ لیکن 1999 میں ایک بار پھر اب ’’رعایا‘‘ کو صحیح سمت پر ڈالنے کے لئے جنرل مشرف چابک سوار کی طرح نازل ہوئے۔ مارشل لاء لگانے سے قبل انہوں نے کارگل کے راستے سری نگر پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہاں پہنچنے میں ناکام رہے تو دریافت کیا کہ قوم کو کسی’’بڑے مقصد‘‘ کی خاطر یکسو اور متحرک رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ٹی وی صحافت کی سرپرستی فرمائی جائے۔ لہازا پرنٹ میڈیا کو ماضی کا مزار بناتے ہوئے ہماری ریاست ٹی وی جرنلزم کی سرپرستی فرمانا شروع ہوگئی۔ انہی دنوں موبائل فون کے استعمال کو رواج بنانے کے لئے کئی ٹیلی کام کمپنیاں بھی متحرک تھیں۔ ان کے چلائے گے اشتہاروں سے ٹی وی صحافت میں رونق لگ گئی۔ اس سے وابستہ ’’صحافی‘‘ جلد ہی مشہور ایکٹروں جیسے سیلبرٹی ہوگئے۔ مجھے پرنٹ میڈیا کی گہرائی اور گمنامی دل سے بہت پسند تھی۔ تھوڑا راحت بھرا رزق کمانے ٹی وی صحافت جوائن کرنے کو مجبور ہوا اور اس طرز صحافت کے لئے ایسا ’’سبز قدم‘‘ ثابت ہوا کہ میرے ٹی وی صحافت شروع ہونے کے چند ہی ماہ بعد جنرل مشرف نے ایمرجنسی پلس لگاکر مجھے چند اینکرز سمیت ٹی وی سکرینوں کے لئے بین کردیا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ٹی وی صحافت کی سرپرستی فرمانے کے بعد ہماری ریاست کو جلد ہی سمجھ آگئی وہ اس کی بدولت ’’صحافی‘‘ نہیں بلکہ بے لگام ’’سٹار‘‘ بنارہی ہے جو من مانی کرتے ہیں۔ ان سے نجات پانے کے لئے پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ کی داستان ایجاد ہوئی۔ جنگ کی یہ انوکھی قسم لڑنے کے لئے چند عمرانڈو قسم کے ’’کمانڈو‘‘ اینکرز تیار کئے گئے جو ریاستی سرپرستی کے پیرا شوٹ کی بدولت جلد ٹی وی سکرینوں پر براجمان ہوگئے۔ ان کے ہوتے ہوئے مجھ ایسے صحافی ’’غدار وتخریب کار‘‘ ٹھہرائے۔ عمران حکومت اور ’’ان ‘‘کے درمیان کامل ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے ٹی وی سکرینوں سے غائب کردئے گئے۔
نصرت بتاتے ہیں کہ اس دوران انٹرنیٹ نے یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم مہیا کردئے۔ ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام وغیرہ نے موبائل فون کے ہر مالک کو پہلے سے ’’صحافی‘‘ بنارکھا تھا۔ انٹرنیٹ کی بدولت متعارف ہوئی صحافت کو سٹیزن جرنلزم Journalism Citizen کہا جاتا ہے۔ اس کی بدولت ’’شہری صحافی‘‘ متحرک ہوئے۔ ہم جیسے ملکوں میں لیکن ریاست ’’شہری‘‘ نام کے ’’جانور‘‘ سے واقف نہیں۔ اس کے بادشاہ محض ’’رعایا‘‘ کو حکم دینے کے عادی ہیں۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں روایتی ٹی وی سے بین ہوجانے کے بعد یوٹیوب کے چکر میں نہیں پڑا۔ اس کی ایک وجہ اگرچہ میری پیدائشی کاہلی بھی تھی۔ لیکن میرے چند دوستوں نے یوٹیوب کے پلیٹ فارم کو نہایت ذہانت ومہارت سے استعمال کیا۔ یوں انہوں نے نیک نامی اور شہرت کے علاوہ صحافتی اداروں کی محتاجی سے بھی نجات پائی۔
لیکن ریاستی امداد سے بننے والے ’’صحافی ہم جیسی ریاستوں سے برداشت نہیں ہوتے۔ لہازا گزشتہ کئی برسوں سے انہیں لگام ڈالنے کے منصوبے بنائے جارہے تھے۔ فروری 2024ء کے انتخابات کی بدولت بالآخر ایسا حکومتی بندوبست میسر ہوگیا جو ’’آئینی اور قانونی ‘‘ ا نداز میں ’’شر‘‘ پر قابو پا سکتا ہے جو نام نہاد سوشل میڈیا بقول ہمارے حکمرانوں کے ’’فیک نیوز‘‘ کے ذریعے پھیلاتا ہے۔ ’’فیک نیوز‘‘ پر قابو پانے کے لئے جو قوانین متعارف کروائے گئے ہیں ان کی کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی سنجیدگی سے مخالفت نہیں کی۔ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی عرصہ ہوا صحافیوں سے اکتائی ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا نے اصل قوت تحریک انصاف کو پہنچائی تھی۔ اس جماعت کے نمائندگان بھی پیکا قوانین کی منظوری روکنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دئے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو سیاستدانوں نے حقارت سے بھلادیا ہے۔ لیکن بات چل نکلی ہے اور یہ فقط سوشل میڈیا تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ جلد ہی آپ حال ہی میں پارلیمان سے منظور ہوئے قوانین کی وجہ سے کئی نامی گرامی صحافیوں کو ذلیل ورسوا ہوتا دیکھیں گے۔ ایسے میں میری دیانتداری سے کوشش ہوگی کہ میں شترمرغ کی طرح ریت میں سردبائے حقائق کو نظرانداز کرتا رہوں۔