آئی جی خیبر پختونخواہ کی تبدیلی: گنڈاپور کے لیے ایک اور بڑا دھچکا

وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور آج کل مشکلات کے گرداب میں دھنسے دکھائی دیتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے پارٹی صدارت واپس لینے کے بعد اب شہباز شریف نے بھی گنڈاپور کو ایک بڑا جھٹکا لگا دیا ہے۔ وفاقی حکومت نے گنڈاپور سرکار کی مشاورت کے بغیر اچانک خیبر پختونخوا پولیس سربراہ اختر حیات گنڈاپور کو ہٹا کر نئے سربراہ کی تعیناتی کے احکامات جاری کردئیے جو تحریک انصاف اور صوبے کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے لیے کسی سرپرائز سے کم نہیں کیونکہ نئے دبنگ آئی جی خیبرپختونخوا ذوالفقار حمید کی تعیناتی کے بعد علی امین  گنڈاپور کیلئے پولیس فورس کو اپنی رعایا کے طور پر استعمال کرنا اب ممکن نہیں رہے گا۔

تاہم خیبر پختونخوا میں نئے آئی جی کی تعیناتی کے بعد سوال۔پیدا ہوتا ہھ کہ کیا واقعی وفاقی حکومت نے اس تعیناتی بارے علی امین گنڈاپور حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا؟ مبصرین کے مطابق 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو صوبائی حکومت نے متعدد بار آئی جی خیبرپختونخوا اور چیف سیکریٹری کے تبادلے کیلئے وفاق سے رابطہ کیا لیکن شہباز شریف حکومت نے سیاسی مخالف پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ کی مرضی کے مطابق پولیس سربراہ تعبیات نہیں کیا جس کی وجہ سے اختر حیات گنڈاپور کو موقع مل گیا۔

پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ اختر حیات وزیراعلیٰ کے اعتماد پر پورا اترنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور دونوں میں ورکنگ ریلیشن قائم ہوگیا تھا جس کے بعد آئی جی کے تبادلے کی بات آئی گئی ہوگئی تھی۔

وزیر اعلیٰ کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ وفاق کی جانب سے علی امین گنڈاپور کے ساتھ آئی جی کے تبادلے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی اور شاید وہ اس حوالے سے بے خبر تھے۔ ذرائع نے کہا کہ ’وزیر اعلیٰ کے لیے آئی جی کا تبادلہ ایک طرح سے سرپرائز تھا‘۔انہوں نے بتایا کہ وفاق نے آئی جی کے تبادلے کے لیے طریقہ کار کو نظر انداز کیا اور صوبائی حکومت کی جانب سے ناموں کی تجویز کے بغیر ہی اپنی مرضی کے افسر کو پولیس سربراہ تعنیات کر دیا۔

اس حوالے سے خیبرپختونخوا پولیس کے سینیئر افسر کا کہنا ہے کہ پولیس سربراہ کی تعنیاتی میں صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ کو اعتماد میں لینا بہت ضروری ہے کیوں کہ پولیس افسر کو کام صوبے کے ساتھ کرنا ہوتا ہے اور اگر تعلقات اور ورکنگ ہم آہنگی نہ ہوسکے تو پولیسنگ متاثر ہونے کا خدشہ ریتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وفاق نے نیا آئی جی تو تعنیات کر دیا ہے لیکن علی امین گنڈاپور اس سے خوش نہیں ہیں اور اس کے خلاف جا سکتے ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ نئے آئی جی کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ وزیر اعظم شہباز شریف کے قریبی ہیں اور کافی عرصے سے پنجاب میں تعنیات تھے۔

تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے اچانک آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات کا تبادلہ کیوں کیا؟حکومتی ذرائع بتاتے ہیں کہ آئی جی اختر حیات اور علی امین گنڈاپور کے درمیان تعلقات اچھے تھے اور ان کے تبادلے کے حوالے سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔تاہم علی امین گنڈاپور کی خواہش تھی کہ ترقی کے بعد صوبے میں ہی تعینات کسی پشتو بولنے والے افسر کو ہی آئی جی پی لگا یا جائے تاہم ان کی سنی نہیں گئی۔

بعض مبصرین کے مطابق صوبے جنوبی اضلاع میں امن و امان کی صورت حال اور بدامنی میں اضافے کی وجہ سے آئی جی خیبرپختونخوا کو عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق لگ یہی رہا ہے کہ آئی جی کا تبادلہ صوبائی یا وفاقی حکومت کی نہیں بلکہ کچھ طاقت ور حلقوں کی ایما پر کیا گیا ہے انہوں نے بتایا کہ آئی جی کے تبادلے کے حوالے سے مکمل خاموشی تھی اور اچانک آئی جی کو ہٹایاجانا صوبائی حکومت کے لیے کسی سرپرائز نما جھٹکے سے کم نہیں ہے۔

Back to top button