عمران کی کن دو خامیوں نے ان کا اور پاکستان کا جنازہ نکال دیا  ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چودھری نے کہا ہے کہ میں عمران خان کا فین تھا اور آج بھی ان کا فین ہوں‘ لیکن ان کی دو خامیوں نے انکا اور پاکستان دونوں کا جنازہ نکال دیا، وہ دو خامیاں ہیں بے تحاشا ضد اور انتہائی بری ٹیم۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوھدری کہتے ہیں کہ یہ وہ دو خامیاں ہیں جنھوں نے بانی کے ساتھ ساتھ ملک کا انجر پنجر بھی ہلا دیا ہے‘ آپ خان کی ضد کا کمال دیکھیے‘ یہ اس ریاست کے ساتھ لڑ رہاہے جو اگر یہ جنگ ہار جاتی ہے تو پھر یہ اس قابل نہیں رہے گی جس پر عمران خان حکومت کر سکے‘ یہ ملک اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اگر یہ ختم ہو گئی تو پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا لیکن خان اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر رہا۔  دوسرا آپ دنیا جہاں کے شان دار لوگ اس کے سامنے کھڑے کر دیں لیکن یہ ان سب کو چیر کر سیدھا کسی عثمان بزدار یا محمود خان پر گرے گا اور پھر اپنی ساری توانائیاں اسے وسیم اکرم پلس بنانے میں صرف کر دے گا۔

لیکن جس طرح خواجہ سرا صاحب اولاد نہیں ہو سکتے بالکل اسی طرح عثمان بزدار آخر میں عثمان بزدار اور محمود خان محمود خان ہی رہتے ہیں مگر آج ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا یہ دونوں خامیاں ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہیں یعنی انتہائی ضد اور بری ٹیم کی سلیکشن۔ مثلاً میاں نواز شریف 2014 میں ٹھیک کام کر رہے تھے‘ حکومت نے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا شروع کر دیا تھا اور سی پیک کے ذریعے معاشی ری وائیول بھی ہو رہا تھا لیکن چند لوگوں کی ضد آڑے آئی اور انھوں نے چلتے ہوئے ملک کو ’’رانگ ٹرن‘‘ کی طرف دھکیل دیا اور خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ ان کا دعویٰ تھا دس لاکھ لوگ لاہور سے نکلیں گے جن میں لاکھ موٹر سائیکل ہوں گے لیکن یہ دعویٰ بری طرح ناکام ہوا‘ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے باوجود لاہور سے دس ہزار لوگ بھی نہیں نکلے اور وہ بھی گوجرانوالہ تک پہنچتے پہنچتے تحلیل ہو گئے۔

جاوید چودھری کہتے ہیں کہ اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ اس وقت خان صاحب کی مینجمنٹ سکلز اور ٹیم میکنگ کی صلاحیت کا اندازہ لگا لیتی تو آج شاید صورت حال مختلف ہوتی لیکن جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں لہٰذا ہمارے بھائی لوگ اسے خان کی ناتجربہ کاری اور سادگی سمجھ بیٹھے۔  خان نے بعدازاں اسلام آباد میں 126 دن دھرنا دیا‘ اس دھرنے کے کھانے تک کا بندوبست جنرل ظہیر الاسلام کرتے تھے‘ دھرنے کے لیے بجلی کا انتظام بھی آبپارہ سے ہوتا تھا‘ اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت بھی اندازہ نہیں ہوا جو شخص یہ چھوٹا سا ٹاسک پورا نہیں کر سکتا وہ کل اگر وزیراعظم بن گیا تو اس کے کپڑے تک ہمیں ڈرائی کلین کرنا پڑیں گے‘ ہم پہلے اسے کرسی پر بٹھائیں گے پھر اس کرسی کی حفاظت کریں گے پھر حکومت چلائیں گے اور آخر میں اس سے بے عزتی بھی کرائیں گے چناں چہ اسٹیبلشمنٹ کی خان کو وزیراعظم بنانے کی ضد نے ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔

جاوید چودھری کہتے ہیں کہ پنجابی کا بڑا شان دار محاورہ ہے‘ نانی کی شادی کرائی برا کیا اور شادی کے بعد نانی کی طلاق کرا دی یہ اس سے بھی برا کیا‘ خان کو زبردستی وزیراعظم بنوانے کی کوشش نانی کا نکاح تھا‘ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘ اسٹیبلشمنٹ خان کو ابھی میچور ہونے دیتی‘ یہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہتا اور 2018میں نہ سہی تو 2024 میں وزیراعظم بن جاتا‘ اس دوران یہ کم از کم تجربہ کار تو ہو جاتا۔  کے پی میں اس کی حکومت بھی اسے بہت کچھ سمجھا دیتی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جلد بازی اور ضد ’’رانگ ٹرن‘‘ ثابت ہوئی ‘ چلیں اگر ہم نے یہ رانگ ٹرن لے لیا تھا تو پھر ہم نانی کی طلاق تو نہ کراتے‘ خان 2022 میں غیرمقبول ہو چکا تھا اور اس کی حکومت اپنے بوجھ تلے دب رہی تھی‘ آپ نے جنرل فیض حمید کا سہارا کھینچ لیا تھا‘ یہ کافی تھا‘ خان کی حکومت اس کے بعد چند ماہ کا کھیل تھی‘ آپ یہ ہونے دیتے۔

پاکستان کا امریکہ کے سہولتکار افغانیوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ

لیکن اس وقت دوبارہ ضد کا مظاہرہ ہوا جس کے نتیجے میں سیاسی طور پر مردہ خان دیو بنتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ آج کسی کے قابو میں نہیں آ رہا‘ نانی کے نکاح کے بعد کی صورت حال نکاح سے پہلے کی صورت حال سے زیادہ افسوس ناک ثابت ہوئی‘ حالات یہ ہیں کہ ریاست اب ایک سوراخ بند کرتی ہے تو پہلے سے بڑا سوراخ پیدا ہو جاتا ہے اور جب اسے بند کر دیا جاتا ہے تو چند فٹ کے فاصلے پر اس سے بھی بڑا سوراخ ہو جاتا ہے۔

Back to top button