جیل میں عمران کوحق زوجیت دلوانے کی کوشش کس نے کی؟

تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے اس شخص کی تلاش شروع کر دی ہے جس نے عمران خان کو جیل میں بشریٰ بی بی کے ساتھ حق زوجیت ادا کروانے کے لیے ایک درخواست دائر کی ہے جبکہ دوسری جانب عمران خان اور پی ٹی آئی کی مرکزی لیڈر شپ نے ایسی کسی بھی درخواست سے اعلان لاتعلقی کر دیا ہے۔

مبصرین کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر ہونے والی ’’حقِ زوجیت‘‘ کی درخواست نے نہ صرف ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے بلکہ تحریک انصاف کی سیاسی و سماجی پوزیشن کو بھی متنازع بنا دیا ہے۔ تاہم اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ درخواست پی ٹی آئی کی جانب سے نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کی جانب سے دائر کی گئی ہے جو خود کو "عوامی مفاد” کا نمائندہ ظاہر کرتا ہے۔ دائر درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ جیل میں قید عمران خان کو اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی جائے اور حکومت کو اس حوالے سے تمام سہولیات بہم پہنچانے کا پابند بنایا جائے۔ تاہم ایک عام سائل کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ سے کئے گئے مطالبے نے نہ صرف قانونی ماہرین بلکہ سیاسی تجزیہ کاروں کو بھی حیران کر دیا ہے، کیونکہ اس نوعیت کی درخواست جیل اصلاحات یا قیدیوں کے حقوق کے عمومی تناظر میں نہیں بلکہ براہِ راست ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔

تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے فوری طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست کی سخت مذامت کرتے ہوئے اس سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی نجی زندگی کو سیاسی پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔  اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کردہ درخواست ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے تاکہ عمران خان کی سیاست کو مزید متنازع بنایا جا سکے اور عوامی ہمدردی کو نقصان پہنچایا جا سکے۔نامعلوم فرد کی جانب سے یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب عمران خان پہلے ہی متعدد مقدمات اور جیل کی سختیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

دوسری جانب پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ صوبے کی جیلوں میں قیدیوں کو ’’حقِ زوجیت‘‘ کی ادائیگی کے لیے پہلے ہی باقاعدہ انتظامات موجود ہیں۔ جیل قوانین کے تحت مخصوص شرائط اور سیکیورٹی پروٹوکول کے ساتھ قیدیوں کو یہ حق دیا جا سکتا ہے۔ اگر عدالت کی جانب سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو ایسی کسی سہولت کی فراہمی کا حکم آیا یا عمران خان کی جانب سے پنجاب حکومت کو ڈائریکٹ درخواست دی  گئی تو اس پر ضرور غور کیا جائے گا۔  تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سہولت عام قیدیوں کے لیے کس حد تک مؤثر ہے، اس پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں یہ ’’حق‘‘ کاغذی کارروائی تک محدود رہتا ہے جبکہ عملی طور پر اس سہولت سے مستفید ہونے کیلئے قیدیوں اور ان کے اہلِ خانہ کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انسانی سمگلرز نے کریک ڈاؤن کے بعد یورپ کے نئے راستے ڈھونڈ لیے

خیال رہے کہ پنجاب حکومت نے جیلوں میں قیدیوں کے لیے ازدواجی ملاقاتوں کے حوالے سے کچھ بنیادی سہولیات موجود ہیں۔ جیل قوانین کے مطابق شادی شدہ قیدی اپنی بیوی یا شوہر کے ساتھ مخصوص حالات میں ملاقات کا حق رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے جیلوں میں علیحدہ کمرے مختص کیے گئے ہیں تاہم جیل حکام کی اجازت، سیکیورٹی کلیئرنس اور بعض اوقات عدالتی حکم کے بغیر قیدی یہ حق استعمال نہیں کر سکتے۔  یہ سہولت عموماً صرف اُن قیدیوں کو دی جاتی ہے جو کسی سنگین جرم میں ملوث نہ ہوں یا جنہیں جیل میں ’’اچھے رویے‘‘ کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے عام قیدیوں کی اکثریت کے لیے یہ حق محض ایک قانون کی کتاب تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ عملاً دیکھا جائے تو پنجاب کی بیشتر جیلوں میں ازدواجی ملاقات کے لیے بنائے گئے کمرے نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ ان کی حالت بھی خستہ حال بتائی جاتی ہے۔ قیدیوں کے اہلِ خانہ کواس سہولت سے مستفید ہونے کیلئے لمبے اور پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، جن میں رشوت اور سفارش کا کردار بھی نمایاں ہے۔ اگرچہ پنجاب حکومت نے یہ سہولت کاغذی طور پر تمام قیدیوں کو فراہم کر رکھی ہے، لیکن اس کا حقیقی فائدہ چند بااثر یا خوش قسمت قیدیوں تک ہی محدود رہتا ہے۔ تاہم پنجاب حکومت نے عمران خان کی جانب سے ایسی کسی بھی درخواست پر ہمدردانہ غور کا اعلان کر دیا ہے۔

Back to top button