انسانی سمگلرز نے کریک ڈاؤن کے بعد یورپ کے نئے راستے ڈھونڈ لیے

 

 

 

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حالیہ کریک ڈاؤن کے باوجود انسانی سمگلرز نے اپنی مکروہ سرگرمیوں سے باز آنے کی بجائے پاکستانی نوجوانوں کو غیر قانونی راستوں سے یورپ پہنچانے کے لیے نئے راستے تلاش کر لیے ہیں۔ سمندری اور زمینی راستوں پر سخت نگرانی اور پابندیوں کے بعد اب یہ نیٹ ورک سعودی عرب کے ذریعے نوجوانوں کو لیبیا تک پہنچانے کا خطرناک اور پیچیدہ راستہ استعمال کرنے لگا۔ مبصرین کے مطابق پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے یورپی ممالک جانے کا رجحان نیا نہیں۔ دہائیوں سے انسانی سمگلرز نوجوانوں کو سبز باغ دکھا کر یورپ اور مشرقِ وسطیٰ پہنچانے کے وعدے کرتے ہیں تاہم بدقسمتی سے غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کے چکر میں وہ دوران سفر ہی سانحات کا شکار ہو کر اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں، اس صورتحال کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی مربوط کارروائیوں سے جیسے ہی غیر قانونی انسانی سمگلنگ کا ایک راستہ بند کرتے ہیں تو سمگلرز فوری نیا روٹ تلاش کر لیتے ہیں اور متاثرین پھر سے ایک نئی امید کے ساتھ اپنی جان داؤ پر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوششیں کوئی وقتی یا عارضی رجحان نہیں بلکہ ایک مستقل اور گہرے سماجی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ دہائیوں سے انسانی سمگلرز نوجوانوں کی محرومی، بے روزگاری اور مستقبل کی بے یقینی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انہیں یورپ بارے ’’سبز باغ‘‘ دکھاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ اکثر المناک سانحات، ڈوبنے والی کشتیوں، لاپتہ افراد اور بکھرے ہوئے خاندانوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ سادہ لوح پاکستانیوں کے استحصال پر مبنی یہ نظام اب ایک منظم اور نفع بخش صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ انسانی سمگلنگ کے اس مکروہ کاروبار میں جب ایک راستہ بند کیا جاتا ہے تو سمگلنگ نیٹ ورکس فوراً نیا روٹ تلاش کر لیتے ہیں۔ یہ لچک اور تیز تبدیلی اس بات کی عکاس ہے کہ انسانی جانیں ان کے لیے محض ’’سامانِ تجارت‘‘ ہیں جنہیں خطرناک راستوں پر دھکیل کر کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس المیے کے ذمہ دار صرف سمگلرز نہیں ہیں۔ ناکام ریاستی پالیسیاں، نوجوانوں کے لیے روزگار کا فقدان، تعلیمی نظام کی کمزوریاں اور سماجی تحفظ کے ناقص ڈھانچے ان غیرقانونی راستوں کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ جب ریاست قانونی اور محفوظ روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو مایوسی نوجوانوں کو غیر محفوظ راستوں پر چلنے پر مجبور کردیتی ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سستی، بدعنوانی اور بین الاقوامی تعاون کی کمی سمگلنگ نیٹ ورکس کو مزید جری بنا دیتی ہے۔

 

ایف آئی اے حکام کے مطابق اس وقت انسانی سمگلنگ کے لیے دو بڑے راستے سب سے زیادہ استعمال ہو رہے ہیں۔پہلا سمندری راستہ ہے، جس میں گوادر اور جیوانی جیسے ساحلی مقامات سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو ایران پہنچایا جاتا اور پھر وہاں سے یورپ تک لے جانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔دوسرا راستہ عمرہ ویزوں کا ہے، جس کے تحت نوجوانوں کو خفیہ طور پر لیبیا منتقل کر کے سمندر کے ذریعے سپین، اٹلی یا یونان پہنچانے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ ان دونوں راستوں میں ویزا فراڈ، جعل سازی اور بیرونِ ملک موجود سہولت کاروں کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

ایف آئی اے کی حالیہ کارروائیوں سے انکشاف ہوا کہ انسانی سمگلرز اور ایجنٹ کس طرح اور کن راستوں پر سرگرم ہیں۔ حالیہ دنوں ایف آئی کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے ایجنٹوں اور نوجوانوں سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ سب افراد ایران کے راستے یورپ پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی طرح پشاور ایئرپورٹ پر بھی ایک منفرد واقعہ پیش آیا جہاں 16 مسافروں کو آف لوڈ کیا گیا۔ یہ سب عمرے پر جانے کے بہانے روانہ ہو رہے تھے لیکن دراصل انہیں ملازمت کا جھانسہ دیا گیا تھا۔ تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ہر شخص نے یورپ پہنچنے کے بعد پاکستان میں موجود ایجنٹ کو فی کس 35 لاکھ روپے ادا کرنے تھے۔

اسی طرح ایف آئی اے نے ایک کارروائی کے دوران فیصل آباد زون میں بھی انسانی سمگلنگ کے ایک نیٹ ورک کو بے نقاب کیا ہے جہاں 6 ملزمان دبئی اور کینیڈا میں ملازمت کا جھانسہ دے کر سادہ لوح نوجوانوں سے لاکھوں روپے بٹور رہے تھے۔ حکام کے مطابق ان ایجنٹوں کا اصل ہدف بھی سعودی عرب کے راستے لوگوں کو لیبیا منتقل کر کے یورپ پہنچانا تھا۔ ذرائع کے مطابق انسانی سمگلرز کے متحرک ہونے کے بعد ایف آئی اے نے بھی جہاں ایک طرف چھاپہ مار کارروائیاں تیز کر دی ہیں وہیں ساحلی علاقوں، ایئرپورٹس اور زمینی راستوں پر بھی نگرانی مزید سخت کر دی گئی ہے اور گرفتار شدگان سے تفتیش کے ذریعے بین الاقوامی نیٹ ورکس تک پہنچنے کی کوشش جاری ہے۔

 

Back to top button