بمبئی حملوں کا الزام بھگتنے والے مولانا عبدالرحمٰن مکی کون تھے؟

نومبر 2008 میں بمبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد دہشت گرد قرار پا کر امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے لشکر طیبہ کے رہنما مولانا عبدالرحمن مکی کی وفات حافظ محمد سعید کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے جنہوں نے پہلے لشکر طیبہ اور پھر جماعت الدعوۃ کی بنیاد رکھی۔

مولانا عبدالرحمان مکی کی وفات بمبئی حملوں کے پورے 16 برس بعد ہوئی۔

یاد رہے کہ بمبئی حملے 26 نومبر 2008 کو کیے گئے تھے جبکہ مولانا مکی کی وفات 27 نومبر 2024 کو لاہور میں ہوئی۔ خیال رہے کہ لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے والے 10 پاکستانی جہادیوں نے 26 نومبر 2008 کو ممبئی میں بہ یک وقت کئی مقامات پر حملے کیے تھے جن میں 166 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ بمبئی کے تاج ہوٹل میں حملہ آوروں اور بھارتی سیکورٹی فورسز کے مابین تین روز تک جاری رہنے والے مقابلے میں 9 حملہ آور مارے گئے تھے جبکہ اجمل قصاب نامی ایک جہادی کو زندہ پکڑ لیا گیا تھا جس نے پاکستانی ہونے کا اعتراف کر لیا تھا۔ اس کے خلاف عدالتی کارروائی چلی اور چار سال بعد اسے پھانسی دے دی گئی۔

بھارت نے الزام عائد کیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے سرگرم لشکر طیبہ سے ہے۔ اس نے جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید اور ذکی الرحمن لکھوی کو حملوں کا منصوبہ ساز قرار دیا۔ بھارت دعویٰ ہے کہ اسنے حافظ سعید اور موکانا مکی کے خلاف ناقابل تردید شواہد پاکستان کے حوالے کیے۔ لیکن کچھ عرصہ صدر حراست رکھنے کے بعد عدالت نے دونوں کو عدم ثبوتوں پر رہا کر دیا تھا۔ تاہم لشکر طیبہ کے چیف آپریشنل کمانڈر مولانا ذکی الرحمان لکھوی کافی عرصہ جیل میں رہے۔ انہیں مولانا عبدالرحمن مکی کے قریب سمجھا جاتا تھا۔

لاہور میں وفات کے وقت مولانا عبدالرحمن مکی کالعدم مذہبی تنظیم جماعت الدعوۃ کے سیاسی و خارجی امور کے شعبے کے سربراہ تھے۔ مولانا عبدالرحمان مکی کے بھانجے اور حافظ سعید کے صاحبزادے طلحہ سعید کے مطابق انکے ماموں طویل عرصے سے شوگر کے مریض تھے اور ان کی وفات دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ مولانا مکی کو 2019 میں حکومتِ پنجاب کے احکامات پر حراست میں لے کر جیل منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ تقریباً ایک برس تک قید رہے اور رہائی کے بعد سے بیمار تھے۔ عبدالرحمان مکی نے اپنی سزا مکمل کرنے کے بعد زندگی کے آخری ایام اپنے گھر میں گزارے۔

عبدالرحمان مکی کالعدم جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید کے ماموں زاد بھائی تھے اور کالعدم جماعت کے شعبہ سیاسی و خارجی امور کے نگران رہے۔

بی بی سی اردو کی رپورٹ میں سینیئر صحافی اعزاز سید بتاتے ہیں کہ حافظ سعید کی شادی عبدالرحمان مکی کی بہن سے ہوئی جبکہ عبدالرحمان مکی حافظ سعید کی بہن سے بیاہے گے۔ اس تناظر میں جماعت میں عبدالرحمان مکی اپنی ایک الگ اہمیت کے حامل تھے اور اسی لیے وہ عملی طور پر جماعت الدعوہ کے نائب امیر بھی سمجھے جاتے تھے۔ بہاولپور میں سال 1948 میں پیدا ہونے والے عبدالرحمان مکی 80 کی دہائی میں اسلام آباد میں اسلامی یونیورسٹی میں معلم کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب اسلامی یونیورسٹی میں اسامہ بن لادن کے استاد عبداللہ عزام سمیت متعدد عرب اور افغان اساتذہ اس ادارے سے منسلک تھے۔

اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ اسلامی یونیورسٹی میں قیام کے دوران مکی کا عبداللہ عزام یا دیگر جہادی رہنماؤں سے کوئی رابطہ رہا تاہم یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ پروفیسر عبدالرحمان مکی کے القائدہ کے مفرور سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری سے قریبی روابط رہے ہیں۔ یہ روابط اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں بنے یا کہیں اور اس کا کسی کو کچھ علم نہیں۔

اعزاز سید کے مطابق اسلامی یونیورسٹی میں قیام کے دوران ہی عبدالرحمان مکی تعلیم کے حصول کے لیے سعودی عرب گئے جہاں مکہ کی جامعہ القرا یونیورسٹی سے اسلامی سیاست کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ جماعت الدعوہ میں انہیں پروفیسر مکی کے نام سے ہی جانا جاتا تھا۔ پروفیسر مکی کے والد حافط عبداللہ علی گڑھ یونیورسٹی بھارت سے تعلیم یافتہ تھے۔ تقسیم ہند کے موقع پر وہ اپنے خاندان اور دیگر افراد کے ہمراہ پاکستان منتقل ہوئے تھے۔ پاکستان میں عبداللہ نے اپنے خاندان کے ہمراہ بہاولپور میں سکونت اختیار کی جہاں وہ ایف سی کالج بہاولپور میں شعبہ درس و تدریس سے منسلک ہوگئے تھے۔ حافظ عبداللہ جمہوریت مخالف نظریات کے پرچار کرتے تھے۔

پاکستان پر پابندیاں لگانے والا امریکہ عمران کی رہائی کیوں چاہتا ہے؟

حافظ سعید کی طرف سے کالعدم جماعت الدعوہ اور لشکر طیبہ کی بنیاد رکھنے میں حافظ عبداللہ کا بنیادی کردار تھا۔ حافظ عبداللہ اپنے بیٹے عبدالرحمان مکی کو بھی جہاد کے راستے پر دیکھنا چاہتے تھے۔ مکی ابھی سعودی عرب میں ہی مقیم تھے کہ ان کے والد عبداللہ پاکستان میں وفات پا گئے۔ 1995 میں وطن واپسی پر عبدالرحمان مکی اپنے والد کی خواہش پر جماعت الدعوہ میں شامل ہوگئے۔ مکی عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے خاص خاندانی پس منظر کے باعث بھارت کے خلاف سخت موقف کے حامی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔پاکستان آنے اور کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ میں شمولیت کے بعد عبدالرحمان مکی مبینہ طور پر افغانستان بھی آتے جاتے رہے۔

Back to top button