پی پی پی اور ن لیگ آئینی عدالت کی بجائے بینچ بنانے پر تیار کیوں؟
کئی روز کی ملاقاتوں اور مشوروں کے بعد بظاہر اب پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت نے مولانا فضل الرحمن کی آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچ بنانے کی تجویز سے اتفاق کر لیا ہے۔ اسکی دو بنیادی وجوہات ہیں، پہلی وجہ مولانا کی حمایت حاصل کرنا ہے تاکہ مطلوبہ اکثریت سے ترمیم کروائی جا سکے۔
دوسری وجہ مولانا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ آئینی بینچ کی تشکیل پر تحریک انصاف کو بھی رضامند کر لیں گے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر ترمیم منظور کروانے کے لیے سینٹ میں درپیش پانچ ووٹوں کی کمی بھی پوری ہو جائے گی۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم پر اتفاقِ رائے کے لیے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں جمعییت علمائے اسلام کی تجویز پر ن کیگ اور پیپلزپارٹی نے ایک آئینی عدالت کے قیام سے پیچھے ہٹنے پر رضامندی ظاہر کر دی تاکہ تحریک انصاف کو بھی اس ترمیم کی حمایت کے لیے ساتھ ملایا جا سکے۔
26ویں آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے آئینی ترمیمی مسودوں پر اتفاقِ رائے کے قیام اور پارلیمانی جماعتوں کے مسودوں کو یکجا کرنے پر گفتگو ہوئی۔ باوثوق ذرائع نے دعویٰ کیا کہ حکومت اور پیپلزپارٹی نے آئینی عدالت کے قیام سے پیچھے ہٹنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔
جے یو آئی ایف نے حکومت اور پیپلزپارٹی کو آئینی عدالت کا مسودہ واپس لینے کی تجویز دی جس پر پیپلزپارٹی اور حکومت نے آئینی عدالت کا مسودہ واپس لینے پر رضامندی ظاہر کردی۔ ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے آصف زرداری اور نواز شریف سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے اور دونوں کی رضامندی کے بعد آئینی عدالت سے متعلق مسودہ باضابطہ طور پر واپس لیا جائے گا۔
اجلاس میں تجویز پیش کی گئی کہ آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینچ تشکیل دیا جانا چاہیے۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہا کہ مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم آئینی کے مابین آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہے اور ایک دو روز میں مکمل طور پر اتفاق رائے ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسودے کو حتمی شکل دینے میں کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی اور مسودے میں بہت سی چیزیں پارلیمنٹ کو طاقتور بنانے کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے آج اجلاس میں اپنی تجاویز پیش نہیں کیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ سیاستدانوں کو آپس میں مل کر بیٹھنا چاہیے، ہم نے عمر ایوب کے تحفظات کو نوٹ کیا ہے لیکن ابھی تک تحریک انصاف کی طرف سے سنجیدگی نظر نہیں آ رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے آئینی کمیٹی میں موجود لوگ بے بس ہیں اور اجلاس میں آکر معمول کی ہی بات چیت کرتے ہیں۔
اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے دعویٰ کیا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے معاملے پر اتفاق رائے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بس اب ایک پھونک کی دیر ہے، یہ پھونک کمیٹی مارے گی، تقریباً سب کا اتفاق ہوگیا ہے۔ اس موقع پر ان کے ساتھ موجود پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے مسودہ نہیں دیا اور آج شام پی ٹی آئی، جمیعت علمائے اسلام کے ساتھ بیٹھے گی۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کا مسودے پر اتفاق ہوگیا ہے۔
دوسری جانب چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ ہم نے اپنا مسودہ تیار کر لیا ہے لیکن بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد اپنا مسودہ پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن سے آج ملاقات ہوگی اور امید ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔انہوں نے ہمارے رہنماؤں کو گرفتار کیا جا رہا ہے جس کے خلاف ہم کل احتجاج کریں گے۔
اس حوالے پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف اور پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب نے کہا کہ ہم آئینی ترامیم پر مخالفت کررہے ہیں اور حکومت کے پاس آئینی ترمیم کے لیے نمبرز پورے نہیں ہیں۔ عمر ایوب نے دعویٰ کیا کہ آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے حکومت کے پاس نمبرز پورے نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ارکان کو ایک، ایک ارب روپے تک آفر کی جارہی ہے۔